بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث کے حصص/ میراث کے مسئلے میں الاقرب فالاقرب کے ضابطے کی وضاحت


سوال

اگر وراثت کی تقسیم میں الاقرب فالا قرب کاہی اصول لاگو ہے تو پھر مجھے یہ سمجھنا ہے کہ اگر داد ا،بیٹے اور پوتا زندہ و حیات  ہیں،ان میں سے ایک بیٹے کی وفات ہو گئی، جس کی اپنی ذاتي جائیداد بھی تھی، میرا سوال یہ ہے کہ اگر پوتا دیگر اولاد کی موجودگی میں وراثت کے حق سے محروم ہو سکتا ہے تو پھر مرنے والے کا باپ (پوتے کا دادا) مرنے والے کی اولاد(پوتا) کی موجودگی میں مرنے والے کی ذاتی جائیداد میں سے 1/6 حصہ کا حق دار کیوں ہے ؟

جواب

مذکورہ مسئلہ کا سمجھنا  والد کی میراث کی ممکنہ حالتوں کے  سمجھنے پر موقوف ہے، والد کی میراث کی ممکنہ تین حالتیں ہیں :

1-    اگر میت نے باپ کے ساتھ اپنی کوئی مذکر اولاد ( بیٹا ، پوتا ، پڑپوتا نیچے تک ) چھوڑی ہو تو باپ کو سد س ملے گا ، اس کو فرض ِ مطلق کہتے ہیں ۔

2-  اگر میت نے باپ کے ساتھ صرف مؤنث اولاد ( بیٹی پوتی پڑپوتی نیچے تک ) چھوڑی ہو تو باپ سدس کے ساتھ عصبہ بھی ہوگا ، اس کو فرض مع التعصیب کہتے ہیں ۔

3- اگر میت کی کوئی مذکر و مؤنث اولاد یا مذکر اولاد کی اولاد نیچے تک نہ ہوں تو باپ تنہا ہونے کی صورت میں پورا ترکہ یا دوسرے اصحابِ فرائض کے ساتھ ہونے کی صورت میں ان کو دینے کے بعد بچا ہوا ترکہ کا وارث ہوگا، اس کو تعصیبِ محض کہتے ہیں۔

لہذا باپ کو صرف عصبہ ہونے کی وجہ سے میراث نہیں ملتی ،بلکہ کچھ حالتوں میں یہ  اصحاب الفرائض میں سے بھی ہے،لہذا بیٹا ہونے کی صورت  باپ کو اس کے اصحاب الفرائض میں سے ہونے کی وجہ سے ملتا ہے اور اصحاب الفرائض ان کو کہتے ہیں ، جن کے حصے اللہ تعالی نے قرآن پاک میں مقرر فرمائے ہیں، لہذا اگر اصحاب الفرائض والی کوئی حالت ہو تو باپ کا حصہ اس کو ملے گا، اور اگر وہ اس کے ساتھ ساتھ عصبہ بھی بن رہا ہو تو وہ حصہ بھی ملے گا،  لہذا الاقرب فالاقرب کا اصول صرف عصبہ ہونے کے اعتبار سے ہےاور اسی میں اس کا اعتبار کیا جاتا ہے،  اصحاب الفرائض میں  قرآن و سنت کی نصوص اور اجماع کا اعتبار کیا جاتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف: جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت كالابن ثم ابنه وإن سفل."

( كتاب الفرائض، 6 /774، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100838

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں