ایک شخص کا انتقال ہوا ہے، اس کے والدین کا انتقال اس کی زندگی ہی میں ہوچکا ہے، بیوی اور بچے بھی نہیں ہیں، صرف ایک حقیقی بہن ہے، ایک چچا زاد بھائی ہے اور دوسرے چچا زاد بھائی کے بیٹے ہیں۔ براہِ مہربانی اس کے ترکے کی تقسیم کا طریقہ بتادیں۔
صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے ترکے کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ کہ سب سے پہلے مرحوم کے ترکہ میں سے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد، اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے باقی مال کے ایک تہائی حصے میں سے نافذ کرنے کے بعد، باقی کل متروکہ جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اس میں سے ایک حصہ مرحوم کی حقیقی بہن کو اور دوسرا حصہ مرحوم کے چچا زاد بھائی کو ملے گا، مرحوم کے دوسرے چچا زاد بھائی کے بیٹوں کو کچھ نہیں ملے گا۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
میت: 2
حقیقی بہن | چچا زاد بھائی |
1 | 1 |
فیصد کے اعتبار سے 50 فیصد مرحوم کی حقیقی بہن کو اور 50 فیصد مرحوم کے چچا زاد بھائی کو ملے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ کُل ترکے کا آدھا حصہ مرحوم کی حقیقی بہن کو اور آدھا حصہ مرحوم کے چچا زاد بھائی کو ملے گا۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"الخامسة - الأخوات لأب وأم للواحدة النصف وللثنتين فصاعدا الثلثان، كذا في خزانة المفتين ومع الأخ لأب وأم للذكر مثل حظ الأنثيين، ولهن الباقي مع البنات أومع بنات الابن، كذا في الكافي."
(كتاب الفرائض،الباب الثاني في ذوي الفروض،ج: 6/ 450، ط: رشيدية)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"فالعصبة نوعان: نسبية وسببية، فالنسبية ثلاثة أنواع: عصبة بنفسه وهو كل ذكر لا يدخل في نسبته إلى الميت أنثى وهم أربعة أصناف: جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده، كذا في التبيين فأقرب العصبات الابن ثم ابن الابن وإن سفل ثم الأب ثم الجد أب الأب وإن علا، ثم الأخ لأب وأم، ثم الأخ لأب ثم ابن الأخ لأب وأم، ثم ابن الأخ لأب ثم العم لأب وأم ثم العم لأب ثم ابن العم لأب وأم، ثم ابن العم لأب ثم عم الأب لأب وأم ثم عم الأب لأب ثم ابن عم الأب لأب وأم، ثم ابن عم الأب لأب ثم عم الجد، هكذا في المبسوط."
(كتاب الفرائض، الباب الثالث في العصبات،6/ 451، ط:دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101983
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن