بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جمادى الاخرى 1446ھ 06 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث: ایک بیوہ، ایک بیٹی اور تین بھائیوں کے درمیان ترکہ کی تقسیم


سوال

میرے والد کے انتقال کے بعد میری والدہ نے میرے والد کے چھوٹے بھائی یعنی میرے چچا سے شادی کرلی اور میرے چچاؤں نے میرے والد کا ترکہ (میراث) آپس میں تقسیم کرلیا ، سوال یہ ہے کہ میرے والد کی میراث میں میرا حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ اگر بنتا ہے تو کتنا حصہ بنتا ہے؟ والد کے انتقال کے وقت ان کے ورثا میں ان کی ایک بیوہ، ایک بیٹی (یعنی میں) اور مرحوم کے تین بھائی موجود تھے۔ والدین کا انتقال زندگی ہی میں ہوچکا تھا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ کا اپنے مرحوم والد کی میراث میں آدھا حصہ بنتا ہے، لہٰذا آپ کے چچاؤں کا آپ کو آپ کے والد کی میراث میں سے حصہ نہ دینا اور مرحوم کا سارا ترکہ آپس میں تقسیم کرلینا شرعاً غلط ہے، ہر وارث کو اس کا شرعی حق دینا لازم ہے، اگر دنیا میں نہ دیا تو آخرت میں اس کا عذاب بھگتنا پڑے گا۔

مرحوم کے ترکے کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ  کہ سب سے پہلے مرحوم کے ترکہ  میں سے حقوقِ  متقدمہ  یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد، اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے  باقی مال کے ایک تہائی حصے میں سے نافذ کرنے کے بعد، باقی کل متروکہ  جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو 8 حصوں میں تقسیم کر کے اس میں سے 1 حصہ مرحوم کی بیوہ کو، 4 حصے مرحوم کی اکلوتی بیٹی (یعنی آپ کو) اور ایک، ایک حصہ مرحوم کے تین بھائیوں میں سے ہر ایک بھائی کو  ملے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:8

بیوہبیٹیبھائیبھائیبھائی
14111

فیصد کے اعتبار سے 12.5 فیصد مرحوم کی بیوہ کو، 50 فیصد مرحوم کی اکلوتی بیٹی (یعنی آپ کو) اور 12.5 فیصد مرحوم کے تین بھائیوں میں سے ہر ایک بھائی کو ملے گا۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وأما الاثنان من السبب فالزوج والزوجة فللزوج النصف عند عدم الولد وولد الابن، والربع مع الولد أو ولد الابن وللزوجة الربع عند عدمهما والثمن مع أحدهما، والزوجات والواحدة يشتركن في الربع والثمن وعليه الإجماع، كذا في الاختيار شرح المختار."

(كتاب الفرائض،الباب الثاني في ذوي الفروض،ج:6/ 450، ط: رشيدية)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے: 

"وأما النساء فالأولى البنت ولها النصف إذا انفردت وللبنتين فصاعدا الثلثان."

(كتاب الفرائض،الباب الثاني في ذوي الفروض،ج: 6/ 448، ط: رشيدية)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وهم كل من ليس له سهم مقدر ويأخذ ما بقي من سهام ذوي الفروض وإذا انفرد أخذ جميع المال، كذا في الاختيار شرح المختار.فالعصبة نوعان: نسبية وسببية، فالنسبية ثلاثة أنواع: عصبة بنفسه وهو كل ذكر لا يدخل في نسبته إلى الميت أنثى وهم أربعة أصناف: جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده، كذا في التبيين فأقرب العصبات الابن ثم ابن الابن وإن سفل  وإن سفل ثم الأب ثم الجد أب الأب وإن علا،ثم الأخ لأب وأم، ثم الأخ لأب ثم ابن الأخ لأب وأم."

(كتاب الفرائض،الباب الثالث في العصبات،ج: 6/ 451، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603100005

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں