باپ فوت ہو گیا، وراثت کے پیسے ابھی بینک میں ہیں ۔قانونی کاروائی کے بعد ہی پیسوں پر قبضہ ہو گا اور اس میں دو ماہ لگ جائیں گے یعنی عید کے بعد ہی پیسوں پر قبضہ ہو گا تو کیا عید کے دنوں میں بیٹوں پر قربانی واجب ہو گی یا نہیں ؟کیوں کہ پیسوں پر ابھی قبضہ نہیں ہوا، وراثت سے پہلے وہ بیٹے صاحب نصاب نہیں ہیں!
واضح ہو کہ میراث میں ملنے والی رقم فقہی اصطلاح کے اعتبار سے "دینِ ضعیف" ہے اور "دینِ ضعیف" جب تک وصول نہ ہو، اس کے وصول ہونے سے پہلے جو شخص صاحبِ نصاب نہ ہو، اس پر قربانی لازم نہیں ہوتی۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں (یعنی اگر عید الاضحی کے تین دنوں میں اگر مذکورہ رقم اور اس کے علاوہ کسی اور ذریعے سے بھی نصاب کے بقدر مال نہ آیا تو) مذکورہ شخص پر قربانی لازم نہیں ہوگی۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2 / 10):
وأما الدين الضعيف فهو الذي وجب له بدلا عن شيء سواء وجب له بغير صنعه كالميراث، أو بصنعه كما لوصية، أو وجب بدلا عما ليس بمال كالمهر، وبدل الخلع، والصلح عن القصاص، وبدل الكتابة ولا زكاة فيه ما لم يقبض كله ويحول عليه الحول بعد القبض.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5 / 64):
وكذا لو كان له مال غائب لا يصل إليه في أيام النحر لأنه فقير وقت غيبة المال حتى تحل له الصدقة بخلاف الزكاة فإنها تجب عليه؛ لأن جميع العمر وقت الزكاة وهذه قربة موقتة فيعتبر الغنى في وقتها ولا يشترط أن يكون غنيا في جميع الوقت حتى لو كان فقيرا في أول الوقت ثم أيسر في آخره يجب عليه لما ذكرنا.
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144211200874
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن