بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث کی تقسیم میں ترکہ کے گھر کی قیمت خرید کا اعتبار نہیں


سوال

ہمارے والد صاحب نے اپنی زندگی میں اپنا رہائش والا گھر 6500000 پینسٹھ لاکھ روپے میں فروخت کرکے ایک دوسری جگہ 8500000 پچاسی لاکھ روپے میں بکنگ کروادی تھی انتقال سے تقریباً 6 ماہ قبل، اور اب وہ جو بکنگ کروائی تھی اب اس کی مالیت کم از کم ڈیڑھ کروڑ روپے کی ہے اب پوچھنا یہ ہے کہ میراث میں وہ 65 لاکھ روپے کے حساب سے تقسیم ہوگا یا پھر ڈیڑھ کروڑ روپے کے حساب سے کیونکہ ایک بھائی اس پر بضد ہیں کہ 65 لاکھ روپے کے حساب سے تقسیم ہوگا ۔

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کے والد مرحوم نے اپنی زندگی میں پچاسی لاکھ مالیت کا جو گھر خریدا تھا، ان کی وفات کے بعد مذکورہ گھر مرحوم کے ترکہ میں شامل ہوگا، جس میں مرحوم کے تمام شرعی ورثاء حصص شرعیہ کے تناسب سے شریک ہوں گے، نیز  مذکورہ مکان   کی تقسیم کے وقت جو ویلیو ہوگی، اسی کے مطابق تمام ورثاء میں تقسیم کرنا ضروری ہوگا، قیمت خرید کا میراث کی تقسیم میں اعتبار نہیں کیا جائےگا، لہذا پینسٹھ لاکھ کے اعتبار سے ترکہ کی تقسیم کرنے پر مجبور کرنا شرعا درست نہیں۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته» ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل؛ لما ذكرنا، والله - سبحانه وتعالى - أعلم."

( كتاب الحدود، فصل في بيان صفات الحدود، ٧ / ٥٧، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100719

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں