بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میڈیکل اَن فِٹ کی بنیاد پر ریٹائر ہو کر پینشن لینے کا حکم


سوال

 میڈیکل رپورٹس اَن فِٹ رپورٹس (صحیح ہو یا غلط، دونوں صورتوں میں اُس کی)کی بنیاد پر قبل از وقت ریٹائرمنٹ اور پینشن لینا شرعی لحاظ سے کیسا ہے؟

جواب

اگر کوئی شخص واقعۃً معذور ہو تو اُس کے لیےمیڈیکل اَن فِٹ رپورٹ کی بنیاد پر ریٹائر منٹ لینا جائز ہے، اور اَن فِٹ ہونے کی بنیاد پر جو مراعات متعلقہ ادارے کی طرف سے دی جاتی ہے(خواہ وہ پینشن ہو یا دیگر اضافی مراعات ہوں)  وہ متعلقہ ادارے کی طرف سے تبرع اور احسان ہوتا ہے، لہٰذا اُن کا لینا جائز ہے۔

اور اگر کوئی شخص معذور نہ ہو اور غلط میڈیکل اَن فِٹ رپورٹ بنواکر اپنے آپ کو معذور ظاہر کرکے ریٹائر ہوتا ہے؛تاکہ ادارے سے اضافی مراعات حاصل کی جاسکے تو یہ کام  جھوٹ اور دھوکے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے   شرعًا ناجائز ہے  اور ایسی صورت میں پینشن اور دیگر اضافی مراعات کا حکم یہ ہے کہ ادارے کی طرف سے عام طور پربغیر عذر کے ریٹائر ہونے کی صورت میں جو مراعات ملازم کے لیےطے ہیں وہی لےسکتا ہے ، اضافی مراعات جو اَن فِٹ ہونے کی وجہ سے دی جاتی ہے اُن کا لینا شرعًا ناجائز ہے، اگر لے لی ہے تو اُن کا لوٹانا ضروری ہے۔

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"التبرع لغة: مأخوذ من برع الرجل وبرع بالضم أيضا براعة، أي: فاق أصحابه في العلم وغيره فهو بارع، وفعلت كذا متبرعا أي: متطوعا، وتبرع بالأمر: فعله غير طالب عوضا. 

وأما في الاصطلاح، فلم يضع الفقهاء تعريفا للتبرع، وإنما عرفوا أنواعه كالوصية والوقف والهبة وغيرها، وكل تعريف لنوع من هذه الأنواع يحدد ماهيته فقط، ومع هذا فإن معنى التبرع عند الفقهاء كما يؤخذ من تعريفهم لهذه الأنواع، لا يخرج عن كون التبرع بذل المكلف مالا أو منفعة لغيره في الحال أو المآل بلا عوض بقصد البر والمعروف غالبا."

(حرف التاء، تبرع، 10/65، ط: دار السلاسل)

مسند احمد میں ہے: 

"عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب." 

(تتمة مسند الأنصار، حديث أبي أمامة، 504/36، رقم الحدیث: 22170، ط:  مؤسسة الرسالة)

ترجمہ:"حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مؤمن ہر خصلت پر ڈھل سکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔"

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام فأدخل يده فيها فنالت أصابعه بللا فقال: «ما هذا يا صاحب الطعام؟» قال: أصابته السماء يا رسول الله قال: «أفلا جعلته فوق الطعام حتى يراه الناس؟ ‌من ‌غش فليس مني»."

(كتاب البيوع، باب المنهي عنها من البيوع، الفصل الأول، 865/2، ط: المكتب الإسلامي)

ترجمه:"حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غلے کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے اور اپنا ہاتھ اس ڈھیر میں داخل کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کو کچھ تری محسوس ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے غلے کے مالک ! یہ تری کیسی ہے؟اس نے عرض کیا:یا رسول اللہ! اس  تک بارش کا پانی پہنچ گیا تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر تم نے تر غلہ کو اوپر کی جانب کیوں نہیں رکھا؛تا کہ لوگ اس کو دیکھ لیتے؟ جو شخص فریب دے وہ مجھ سے نہیں ہے۔"

درر الحکام  فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي ..... قد قيدت هذه المادة بقوله (بلا سبب شرعي) لأنه بالأسباب الشرعية كالبيع، والإجارة، والهبة، والكفالة، والحوالة يحق أخذ مال الغير."

(المقالة الثانية في بيان القواعد الفقهية الكلية، المادة: 97، 98/1، ط: دار الجيل)

"عن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «عليكم بالصدق فإن الصدق يهدي إلى البر، وإن البر يهدي إلى الجنة، وما يزال الرجل يصدق ويتحرى الصدق حتى يكتب عند الله صديقا، ‌وإياكم ‌والكذب فإن الكذب يهدي إلى الفجور، وإن الفجور يهدي إلى النار، وما يزال العبد يكذب ويتحرى الكذب حتى يكتب عند الله كذابا»."

(أبواب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‌‌باب ما جاء في الصدق والكذب، 348/4، ط: مطبعة عيسى البابي الحلبي)

ترجمہ:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ:سچ بولنےکولازم پکڑو،پس بےشک سچ (انسان کو) نیکی کی طرف لے جاتاہے،اور نیکی (انسان کو)جنت کی طرف لےجاتی ہے،اور آدمی برابر سچ بولتاہے،اور سچ بولنے کی کوشش کرتاہےیہاں تک کہ وہ اللہ تعالٰی کے ہاں سچا لکھ دیاجاتاہے،اور جھوٹ سے بچو،پس بے شک جھوٹ (انسان کو) گناہ کی طرف لےجاتاہے ،اور گناہ (انسان کو) جہنم کی طرف لے جاتاہے،اوربندہ برابر جھوٹ بولتاہے اورجھوٹ بولنے کی کوشش میں لگارہتاہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالٰی کے ہاں جھوٹالکھ دیاجاتاہے۔"

صحیح مسلم میں ہے:

 "عن أبي هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من حمل علينا السلاح فليس منا، ومن غشنا فليس منا."

 (کتاب الإیمان، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم: «من غشنا فليس منا، ج: 1، ص: 99، ط: مطبعة عيسى البابي الحلبي)

ترجمہ :" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ :جس نے ہم پر اسلحہ اٹھایاوہ ہم میں سے نہیں ہے ،اور جس نے ہمیں دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101701

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں