زید کا داخلہ ایم بی بی ایس میں نہیں ہوا کیونکہ اس نے محنت نہیں کی تھی، پھر اس نے ایک سال کا وقفہ لے کے سارے امتحانات دوبارہ دیے اور اس کا ایم بی بی ایس پہ میرٹ بن گیا ، پر اب یونیورسٹی میں میڈیکل کی سیٹیں امیر زادے خرید لیتے ہیں اور اب یونیورسٹی والے زید کو کہہ رہے ہیں کہ وہ سات لاکھ روپے جمع کرا دے تو اس کو سیٹ مل جائے گی ، کیا زید کے لئے بغیر رشوت کی نیت کے اس نیت کے ساتھ پیسے جمع کرانا کہ یہ اس کا حق بنتا ہے پر سسٹم کرپٹ ہونے کی وجہ سے اس کو ایسا کرنا پڑ رہا ہے۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا مذکورہ صورت میں زید کا پیسے جمع کرا کے ایم بی بی ایس سیٹ حاصل کرنا جائز ہے ، جب کہ یہ اس کا حق بھی بنتا ہے ، پر امیر زادے پہلے سے سیٹیں خرید لیتے ہیں؟ یا یہ بھی گناہ ہے اور روز محشر اللہ کے آگے زید کو اس کا حساب دینا ہو گا جب کہ یہ اس کا حق بنتا ہے اور کرپشن کی وجہ سے اس کو ایسا کرنا پڑ رہا ہے؟
واضح رہے کہ رشوت ایک سنگین اور بڑا گناہ ہے ، جس کی بہت سخت وعید قرآن اور احادیث مبارکہ میں وارد ہوئی ہے اور شرعا رشوت کا دینا اورلینا دونوں حرام ہے ، لیکن اگر کسی کا کوئی حق ( جو اس کو یقینی طور پر معلوم ہو کہ یہ میرا حق ہے ) اس کو رشوت کے بغیر نہیں مل سکتا ہے، تو ایسی صورت میں رشوت دینے کی گنجائش ہے ،یعنی دینے والے کے لیے رشوت دینا حرام نہیں ، لیکن لینے والے کے لیے ایسی صورت میں بھی رشوت لینا حرام ہے ۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کو یقینی طورپر معلوم ہے کہ یہ سیٹ میرا حق ہے ، جو مجھے بغیر رشوت کے نہیں مل رہی ہے ، تو ایسی صورت میں رشوت دے کر مذکورہ سیٹ حاصل کرنے کی شرعا گنجائش ہے ۔
سنن أبی داؤد میں ہے:
"عن عبد الله بن عمرو قال : لعن رسول الله صلى الله عليه و سلم الراشي والمرتشي. "
(كتاب الأقضية ، باب في كراهية الرشوة ، رقم الحديث: 3580، ج: 2، ص: 324، ط: دار الفكر)
ترجمہ :
’’ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رشوت دینے او ر رشوت لینے والے پر لعنت بھیجی ۔‘‘
درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام میں ہے:
"حرمة الرشوة - والرشوة حرام شرعا وحرمتها ثابتة بالكتاب والسنة وقد ورد في القرآن الكريم قوله تعالى - : { يا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل } وتصدير الخطاب بالنداء والتنبيه للاعتناء بمضمون ما ورد بالآية الكريمة , والمقصود من الباطل الأسباب المخالفة للشرع الشريف كالأشياء التي لم يبحها كالغصب والسرقة والخيانة , والقمار وعقود الربا { ومن يفعل ذلك عدوانا } أي إفراطا في التجاوز عن الحد , وإتيانا بما لا يستحقه { فسوف نصليه نارا } ( تفسير أبي السعود في سورة النساء ) . وقد ورد في آية جليلة أخرى { أكالون للسحت } أي الحرام كالرشوة من ( سحته ) إذا استأصله ; لأنه مسحوت البركة ( القاضي ) . السنة : قد ورد في السنة الشريفة حديث { لعن الله الراشي والمرتشي والرائش } والراشي : هو الدافع للرشوة . والمرتشي : هو الأخذ لها . والرائش : هو الواسطة بين الراشي والمرتشي..."
(ج: 4، ص: 536، ط: دار الكتب العلمية)
وفیہ أیضا:
"والرشوة هي المال الذي يدفع بشرط الإعانة أما الهدية فهي المال الذي يدفع بلا شرط الإعانة . والرشوة تقسم إلى أربعة أقسام : 1 - الرشوة المحرمة على الآخذ والمعطي كالرشوة التي تعطى للقاضي ليحكم له ويأثم المعطي في إعطاء الرشوة على ذلك الوجه , ولو كان محقا في دعواه ويأثم القاضي إذا حكم لذلك الرجل بناء على الرشوة التي أخذها , ولو كان الراشي محقا في دعواه ويكون ملعونا . 2 - الرشوة المحرمة على الآخذ وغير المحرمة على الدافع كما لو دفع أحد رشوة لأحد لخوفه على نفسه أو ماله أو دفع أحد لآخر رشوة لتحققه طمعه في ماله وبقصد تخليص بعض ماله منه فأخذ الرشوة من طرف الآخذ حرام وممنوع ( الولوالجية ) ولكن ليس محرما إعطاؤها انظر المادة ( 21 ) . 3 - لو كان لأحد أمر محق فيه عند وال فأدى أحد الأشخاص غير الموظفين مالا ليقوم له بإتمام ذلك الأمر فيحل دفع ذلك وأخذه ; لأنه وإن كانت معاونة الإنسان للآخر بدون مال , واجبة فأخذ المال مقابل المعاونة لم يكن إلا بمثابة أجرة ( الولوالجية بتغيير يسير ) . 4 - أن يكون أخذه , وإعطاؤه حلالا حيث لم يكن رشوة بل بدل إيجار وهو كما ذكر في مثال القسم الثالث , وهو إذا استأجر أحد آخر ليقوم له بشغل ما لوقت المساء بكذا درهما فاستخدام ذلك الرجل في شغل آخر مباح ( الخانية ) ."
(ج: 4، ص: 536، ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي المصباح الرشوة بالكسرما يعطيه الشخص الحاكم وغيره ليحكم له أو يحمله على ما يريد، جمعها رشا مثل سدرة وسدر، والضم لغة وجمعها رشا بالضم اهـ وفيه البرطيل بكسر الباء الرشوة وفتح الباء عامي.وفي الفتح: ثم الرشوة أربعة أقسام: منها ما هو حرام على الآخذ والمعطي وهو الرشوة على تقليد القضاء والإمارة. الثاني: ارتشاء القاضي ليحكم وهو كذلك ولو القضاء بحق؛ لأنه واجب عليه. الثالث: أخذ المال ليسوي أمره عند السلطان دفعا للضرر أو جلبا للنفع وهو حرام على الآخذ فقط ..."[وقال بعده: ] "الرابع: ما يدفع لدفع الخوف من المدفوع إليه على نفسه أو ماله حلال للدافع حرام على الآخذ؛ لأن دفع الضرر عن المسلم واجب ولا يجوز أخذ المال ليفعل الواجب، اهـ ما في الفتح ملخصا..."
(كتاب القضاء، ج: 5، ص: 362، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144604102627
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن