بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

میڈیکل کالج میں تعلیم کی غرض سے انسانی ہڈیوں کے استعمال اور انسانی ہڈیوں کی خرید فروخت کا حکم


سوال

 میڈیکل کالج میں انسانی ہڈیوں کو پڑھائی کے دوران استعمال کرنا جائز ہے؟ اور اسے استعمال کی غرض سے ان کا خریدنا اور بیچنا شرعا جائز ہے یا نہیں؟ 

جواب

واضح رہے کہ انسان زندہ ہو یا مردہ، مسلمان ہو یا کافر، شریعتِ  مطہرہ نے انسان کو مکرم و محترم بنایا ہے اور  اس  کے احترام کا حکم دیا ہے،  اس لیے  شریعتِ  مطہرہ  نے جہاد کے دوران بھی کفار کی لاشوں کا مثلہ  کرنے (اعضاء وغیرہ کاٹنے) کو ممنوع قرار دیا ہے، چناں چہ   انسان کے مرنے کے بعد بھی اس کی حرمت باقی ہونے کی وجہ سے انسانی جسم اور اعضا ء کا احترام لازم ہے، اسی لیے  مرنے کے بعد بھی انسانی اعضاء یا ہڈیوں کو کاٹ کر الگ کرنا اور ان کی خرید و فروخت کرنا بالکل ناجائز اور حرام ہے، میڈیکل کی تعلیم کے  لیے بھی صرف ایسے ذرائع اختیار کرنا جائز ہے جس کی شریعتِ مطہرہ کی طرف سے اجازت ہو، میڈیکل کی تعلیم کے  لیے ناجائز  طریقۂ تعلیم اختیار کرنا جائز نہیں ہے؛ لہذا میڈیکل کالج میں پڑھائی کے دوران انسانی ہڈیوں کو مختلف تجربات کے  لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہے اور کسی بھی غرض سے انسانی ہڈیوں کا خریدنا یا بیچنا جائز نہیں ہے۔ انسانی ہڈیوں کی خرید  و  فروخت سے جو کمائی حاصل ہوگی،  وہ بھی ناجائز اور حرام ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 58):

"(كما بطل) (بيع صبي لا يعقل ومجنون) شيئا وبول (ورجيع آدمي لم يغلب عليه التراب) فلو مغلوبا به جاز كسرقين وبعر، واكتفى في البحر بمجرد خلطه بتراب (وشعر الإنسان) لكرامة الآدمي ولو كافرا ذكره المصنف وغيره في بحث شعر الخنزير.

(قوله: وشعر الإنسان) ولا يجوز الانتفاع به لحديث «لعن الله الواصلة والمستوصلة» وإنما يرخص فيما يتخذ من الوبر فيزيد في قرون النساء وذوائبهن هداية.

[فرع] لو أخذ شعر النبي صلى الله عليه وسلم ممن عنده وأعطاه هدية عظيمة لا على وجه البيع فلا بأس به سائحاني عن الفتاوى الهندية.

”مطلب الآدمي مكرم شرعا ولو كافرا“

(قوله: ذكره المصنف) حيث قال: والآدمي مكرم شرعًا و إن كان كافرًا، فإيراد العقد عليه و ابتذاله به و إلحاقه بالجمادات إذلال له. اهـ أي و هو غير جائز وبعضه في حكمه و صرح في فتح القدير ببطلانه ط. قلت و فيه أنه يجوز استرقاق الحربي و بيعه و شراؤه و إن أسلم بعد الاسترقاق، إلا أن يجاب بأن المراد تكريم صورته و خلقته، و لذا لم يجز كسر عظام ميت كافر و ليس ذلك محل الاسترقاق و البيع والشراء، بل محله النفس الحيوانية فلذا لايملك بيع لبن أمته في ظاهر الرواية، كما سيأتي، فليتأمل."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201298

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں