بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میڈی کئیر میں ایک سے زائد کلینک ہونے کی صورت میں ہونے اخراجات(بل وغیرہ) کا حکم


سوال

ہم ایک میڈی کئیر میں کرایہ دار کی حیثیت سے ہیں ،اس میڈی کئیر میں چار کلینک ہیں،جس میں سے تین کلینکوں کی  اونر کے ساتھ پارٹنر شپ ہے اور ہم  صرف کرایہ دار کی حیثیت سے ہیں،شروع میں کرایہ پانچ ہزار تھا اور اب بڑھتے بڑھتے ساڑھے سترہ ہزار ہوگیا ہے،جس وقت ہم نے کلینک کرایہ پر لیا تھا ،اس وقت فقط دو کلینک تھے،اور یہ معاہدہ ہوا تھا کہ بجلی کا بل آدھا آدھا تقسیم کیا جائے گا یعنی آدھا ہم دیں گے اور آدھا اونر دیں گے ،لیکن بعد میں انہوں نے دو کلینک بڑھا دیےاور ان تینوں کو اپنا پارٹنر بنالیا،لیکن اس کے باوجود ہم سے پچاس فیصد ہی بل وصول کیا جاتا ہے،حالانکہ کہ شروع میں پچاس فیصد اس لیے طے ہوا تھا کہ دو ہی کلینک تھے۔

دریافت یہ کرنا ہےکہ

1۔اونر کا اب بھی ہم سے پچاس فیصد بل وصول کرنا درست ہے؟

2۔کلینک میں کبھی کوئی خرچہ ہو ،مثلاً "اے سی "کی ریپئرنگ ،جنریٹر کا خرچہ،سائن بورڈ وغیرہ جو کلینک کے باہر لگوایا گیا،ان سب چیزوں میں اونر  ہم سے  پچاس فیصد وصول کرتے ہیں ،جب کہ ان چیزوں سے سب برابر استفادہ حاصل کرتے ہیں،کیا یہ درست ہے؟

اونر کوئی بھی نئی چیز خریدیں(مثلا جنریٹر) تو اس میں بھی ہمیں پچاس فیصد کا پابند کرتے ہیں خواہ  ہماری اس کو خریدنے کی استطاعت ہو یا نہ ہو،ہمیں اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو،کیا اونر کا ہمیں اس بات کا پابند کرنا شرعاً درست ہے؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں سائل کے ساتھ اونر کا پچاس فیصد بل ادا کرنے کا معاہدہ اس صورت میں ہوا تھا جب صرف دو کلینک تھے،لہٰذا کل چار کلینک ہونے کی صورت میں بھی اونر کا سائل کو پچاس فیصد بل ادا کرنے کا پابند کرنا درست نہیں ہے،جب کہ  سب اس کو مشترکہ طور پر استعمال کرتے ہیں۔

2۔اونر کا کلینک میں ہونے والے اخراجات (اے سی کی ریپئرنگ،جنریٹر کا خرچہ،سائن بورڈ کا خرچہ وغیرہ) میں سائل کو پچاس فیصد کا پابند کرنا بھی درست نہیں ہے،مذکورہ چیزیں جب سب مشترکہ طور پر برابر استعمال کرتے ہیں تو ان کے اخراجات برداشت کرنا بھی ہر ایک پر برابر لازم ہے۔

3۔اونر کا ہر چیز کی خریداری میں سائل کو اس بات کا پابند کرنا کے آپ پچاس فیصد ادا کریں،جب کے سائل کو اس چیز کی ضرورت بھی نہ ہو شرعا جائز نہیں ہے۔

درر الحكام في شرح مجلة الأحكاممیں ہے:

"الخلاصة: إن نفقات الأموال المشتركة تعود على الشركاء بنسبة حصصهم في تلك الأموال حيث إن الغرم بالغنم ......"

(الكتاب العاشر الشركات،الباب الخامس في بيان النفقات المشتركة ،3/ 310،ط:دار الجيل) 

سنن أبي داود میں ہے:

"وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: المسلمون ‌على ‌شروطهم."

(كتاب القضاء،باب في الصلح،3/ 333 ط:المطبعة الأنصارية بدهلي)

 شرح المجلة  میں ہے:

"(المادة:97)لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي."

(المقالة الثانية،1/51،ط:رشیدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101178

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں