بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سنا ہے کہ کاروباری معاملات میں قسم نہیں کھانا چاہیےکیا یہ درست ہے ؟


سوال

سنا ہے کہ کاروباری معاملات میں قسم نہیں کھانی چاہیے، کیا یہ درست ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ   اللہ رب العزت کے نام کی حرمت بہت زیادہ ہے،بات بات پر قسم اٹھانے سے اللہ کے نام کی حرمت وعظمت دل میں کم ہوجاتی ہے،پھر انسان قسم توڑنے میں جری ہوجاتاہےاور اللہ کے نام کی حرمت وعظمت کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سےگناہ گار ہوتا ہے،شریعت مطہرہ نے بے جا قسم کھانے سے منع فرمایاہے اور زیادہ قسمیں  کھانا شرعًا پسندیدہ بھی نہیں۔

حدیث شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اپنے معاملات میں زیادہ قسمیں کھانے سے پرہیزکرو کیوں کہ (تجارتی معاملا ت)میں زیادہ قسمیں کھانا کاروبار کو رواج دیتا ہے مگرپھر برکت کھو دیتا ہے۔

اس لیے زیادہ قسمیں کھانا مناسب نہیں۔

ایک اورحدیث شریف میں آتا ہے کہ:

اللہ تعالی قیامت کے دن ایسے شخص سے نہ بات کریں گے، اور نہ ہی اس پر نظر کریں گے، جو اپنا سامان جھوٹی قسم کھا کر فروخت کرتا ہو۔

اس لیے  سامان بیچنے کی خاطر جھوٹی قسم کھانا بڑے خسارے کی بات ہے؛لہذا معاملات کرتے وقت  قسم کھانےسے  بچنا چاہیے ۔

مشکاۃ المصابیح  میں ہے :

"إیاکم و کثرة الحلف في البیع فإنه ینفق ثم یمحق، رواہ مسلم."

(كتاب البيوع،الفصل الأول،ج:2،ص:850،رقم الحديث:2793،ط:المكتب الإسلامي،بيروت)

ترجمہ:حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اپنی تجارتی زندگی میں زیادہ قسمیں کھانے سے پرہیزکرو کیونکہ(تجارتی معاملا ت)میں زیادہ قسمیں کھانا کاروبار کو رواج دیتا ہے مگرپھر برکت کھو دیتا ہے۔

مشكاة المصابيح ميں ہے:

"وعن أبي ذر رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا ينظر إليهم ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم» . قال أبو ذر: خابوا وخسروا من هم يا رسول الله؟ قال: «المسبل والمنان ‌والمنفق ‌سلعته بالحلف الكاذب» . رواه مسلم"

(كتاب البيوع الفصل الأول،ج:2،ص:850،ط:رقم الحديث:2795،ط:المكتب الإسلامي،بيروت)

مشكاة المصابيح ميں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «‌الحلف منفقعة للسلعة ممحقة للبركة»."

(كتاب البيوع،الفصل الأول،ج:2،ص:850،رقم الحديث:2794،ط:المكتب الإسلامي،بيروت)

تفسیرمظہری میں آیت"وَلَا تَجْعَلُوا اللَّهَ ‌عُرْضَةً ‌لِأَيْمَانِكُمْ"کے تحت ہے:

"عرب کا محاورہ ہے"جعلتہ عرضۃً لکذا ،" یعنی فلاں کام کے واسطے شے کو میں نے گاڑھ دیا،تو اب آیت کا یہ معنی ہوں گے کہ اللہ تعالی کواپنی قسموں کا نشانہ نہ بنالو کہ ہر بات   میں اس کی قسم کھانے لگو۔قاموس میں ہے"العرضة الإعتراض في الخیر والشر"اس صورت میں یہ معنی ہوں گےکہ ہروقت خدا کی قسمیں نہ کھایا کرو…….اس آیت سے ثابت ہوگیا کہ زیادہ قسمیں کھنا مکروہ  ہے اور یہ بھی کہ زیادہ قسمیں کھانے والا اللہ پر جرات کرنے والا ہے، نہ وہ صالح پرہیز گار ہوتا،اور نہ لوگوں میں صلح کرانے کےاندروہ اعتبارکےقابل ہے"۔

(تفسير مظہری ،1/333،ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100093

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں