بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی کے متعلق چند سوالات کا جواب


سوال

( 1)ایک مرداورعورت نے شادی سے پہلے ہم بستری کی تھی،انہوں نے یہ معاملہ کبھی کسی کو نہیں بتایاتھا، اور نہ ہی توبہ کیا،اسی کام کو نہ دہرانے کا فیصلہ کیا،انہوں نے چند ماہ بعد ایک دوسرے سے شادی کر لی، چند سال بعد بیوی نے اپنے ایک دوست کے سامنے اس معاملہ کاانکشاف کیا،کیاایک دوسرے کےساتھ اب نکاح جائز ہے؟

(2)  جب اوپر والا معاملہ کسی تیسرے شخص کو معلوم ہو جائے،اس کی وجہ سےشوہر نے اسےطلاق دی، کیا طلاق واقع ہوجاتی ہے؟ ایک مجلس میں ایک یادویاتین طلاقیں واقع ہوسکتی ہیں؟

(3)اس مرداورعورت کے لیے کیا سزا ہے،جب  کہ معاملہ تیسرے شخص کو معلوم ہو؟

(4) اگر ان میں سے کسی نے توبہ نہ کی ہو یا گناہ پر پشیمان نہ ہو تو کیا ہوگا؟

(5)کیا مرد عدت کے بعد فوری طور پر دوسری عورت سے نکاح کر سکتا ہے ،اگر عدت ضروری ہو؟  کیا عورت عدت کے بعد فوراً دوسرے مرد سے نکاح کر سکتی ہیں اگر عدت ضروری ہو؟ 

جواب

(1)صورتِ مسئولہ میں میاں بیوی دونوں کانکاح برقرارہے۔

(2)اوپرمعاملہ کی وجہ سےاگرواقعۃً شوہرنےاپنی بیوی کوطلاق دی ہے،تویہ طلاق درست ہےاورواقع ہوجاتی ہے،اورایک مجلس میں ایک یادویاتین طلاق دینےسےاتنی ہی طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔

(3)کوئی سزاءنہیں ہے،لیکن آئندہ دوبارہ ایسے سنگین گناہ سےاجتناب کریں،اور توبہ استغفار کریں۔

(4)موت کی کیفیت شروع ہونےسےپہلےتک توبہ کادروازہ کھلاہے،لہٰذااس بےحیائی کےمعاملہ پر میاں بیوی دونوں جلدی توبہ اوراستغفار کریں،اوراپنےکیےہوئےگناہ پرنادم اورپشیمان ہوجائیں،پھرآپس میں یاکسی اورکےسامنےبھولےسےبھی اس کاتذکرہ نہ کریں،ورنہ بصورت دیگرآخرت میں دونوں کامؤاخذہ ہوگا،اور اپنے گناہوں پر گواہوں کا اضافہ ہو گا۔

(5)جس مرد کی بیوی کاانتقال ہوجائےیااس نےطلاق دی ہو،دونوں صورتوں میں اس پر دوسری جگہ شادی کرنےسےپہلےکوئی عدت لازم نہیں ہے،البتہ اگرآدمی اپنی مطلقہ کی  بہن  یااس کی کسی خونی رشتہ دارعورت سےنکاح کرناچاہےتواسے اپنی مطلقہ کی عدت پوری ہونےتک انتظارکرنالازم ہوگا۔لیکن (بیوہ یامطلقہ )عورت پربہرحال عدت گزارنالازم ہے،عدت پوری ہونےسےپہلےاس کادوسری جگہ نکاح کرناجائز نہیں ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

"وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا .سورة بني اسرائيل(32)."

ترجمہ ":اور زنا کے پاس بھی مت پھٹکوبلاشبہ وہ بڑی بےحیائی کی بات ہے اور بری راہ ہے۔"(بیان القرآن)

قرآن مجید میں ہے:

’’اِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَ یُحِبُّ المُتَطَهِّرِینَ‘‘ [البقرة:222]

ترجمہ: "یقینًا اللہ تعالیٰ محبت رکھتے ہیں توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتے ہیں پاک صاف رہنے والوں سے۔"(بیان القرآن)

مسند بزار میں ہے:

"عن عبد الله بن بريدة، عن أبيه، رضي الله عنه: إن السماوات السبع والأرضين السبع والجبال ليلعن الشيخ الزاني، وإن فروج الزناة لتؤذي أهل النار بنتن ريحها."

(مسند بریدۃ بن الحصیب رضی اللہ عنه، ج:10، ص: 310، ط : مکتبة العلوم و الحکم ۔ المدینة المنورۃ)

ترجمہ:"ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں شادی شدہ زنا کار پر لعنت کرتی ہیں اور جہنم میں ایسے لوگوں کی شرم گاہوں سے ایسی سخت بدبو پھیلے گی جس سے اہلِ جہنم بھی پریشان ہوں گے اور آگ کے عذاب کے ساتھ ان کی رسوائی جہنم میں ہوتی رہے گی۔"

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «‌لا ‌يزني ‌الزاني حين يزني وهو مؤمن ولا يشرب الخمر حين يشربها وهو مؤمن ولا يسرق السارق حين يسرق وهو مؤمن ولا ينتهب نهبة ذات شرف يرفع الناس إليه أبصارهم فيها حين ينتهبها وهو مؤمن ولا يغل أحدكم حين يغل وهو مؤمن فإياكم إياكم»."

(کتاب الإیمان، باب الکبائر و علامات النفاق، ج:1، ص:23، ط : دار المکتب الإسلامي ۔ بیروت)

ترجمہ:"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے تو اس وقت اس کا ایمان باقی نہیں رہتا شراب پینے والا جب شراب پیتا ہے تو اس وقت اس کا ایمان باقی نہیں رہتا اور چھینا جھپٹی کرتا ہے اورلوگ اس کو (کھلم کھلا) چھینا جھپٹی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں (لیکن خوف و دہشت کے مارے بے بس ہوجاتے ہیں اور چیخ و پکار کے علاوہ اس کا کچھ نہیں بگاڑتے تو اس وقت اس کا ایمان باقی نہیں رہتا پس تم (ان گناہوں سے) بچو۔"

الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے:

"انتهاء النكاح:

ينتهي النكاح وتنفصم عقدته بأمور: منها ما يكون فسخا لعقد النكاح يرفعه من أصله أو يمنع بقاءه واستمراره، ومنها ما يكون طلاقا أو في حكمه....‌‌أ - الموت....‌‌ب - الطلاق....‌‌ج - الخلع....‌‌د - الإيلاء....‌‌هـ - اللعان....‌‌و إعسار الزوج....‌‌ز - الردة....‌‌ح - غيبة الزوج....ط - فوت الكفاءة....ي - التحريم الطارئ بالرضاع."

(انتهاء النكاح، ج:41، ص:321، دارالسلاسل - الكويت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

 "وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث."

(كتاب الطلاق، ركن الطلاق، ج:3، ص:233، ط: سعيد)

مرقاۃالمفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"قال النووي: اختلفوا ‌فيمن ‌قال ‌لامرأته: ‌أنت ‌طالق ‌ثلاثا، فقال مالك والشافعي وأبو حنيفة وأحمد والجمهور من السلف والخلف: يقع ثلاثا."

(كتاب النكاح، باب الخلع والطلاق، ج:5، ص:2145، ط:دار الفكر)

تحفة الفقہاء میں ہے:

"وأما عدة الطلاق فثلاثة قروء في حق ذوات الأقراء إذا كانت حرة.....وأما في حق الحامل فعدتها وضع الحمل لا خلاف في المطلقة لظاهر قوله:{وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن }."

( كتاب الطلاق، باب العدة، ج:2، ص:244/245، ط: دار الكتب العلمية،بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502102032

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں