بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جمادى الاخرى 1446ھ 14 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

میں تمہیں طلاق دیتا ہوں تین بار کہنے سے طلاق کا حکم


سوال

میرے اور میری بیوی کے درمیان آئے دن کسی نہ کسی بات پر لڑائی ہوتی تھی، میری بیوی میرے بارے میں شک کرتی تھی، اور کئی بار ہمارے درمیان لڑائی ہوئی ہے ، اور وہ میرے موبائل سے کچھ ویڈیوز اور تصاویر بھی دیکھ چکی تھی ، پھر بعد میں ہماری لڑائی بھی ہوئی تھی ، جوکہ بعد میں گھر والوں نے معاملات حل کروادیے۔

ابھی کچھ دن پہلے میرا موبائل چیک کیا گیا تھا، پھر میرے ذہن میں باتیں چل رہی تھیں ، میں جمعہ کی نماز پڑھ رہا تھا تب بھی باتیں ذہن میں چل رہی تھیں، میں نماز پڑھ کر گھر آیا تو میں غصہ کی حالت میں تھا، ہم کھانے پر بیٹھے ہوئے تھے ، میں نے پہلے گالم گلوچ کی ، اور بعد میں مزید غصہ میں آیا تو میں نے بولا :"میں تمہیں  طلاق دیتا ہوں "،یہ الفاظ میں نے تین مرتبہ بولے ۔ اور اس وقت میں اور میری بیوی کے علاوہ کوئی بھی کمرے میں موجود نہیں تھا۔تو اب اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں جب سائل نے اپنی بیوی کو غصے میں  تین بار ان الفاظ سے طلاق دی ہے کہ :"میں تمہیں طلاق دیتا ہوں"، تو اس سے سائل کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،عورت اپنےشوہر پر  حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، اب سائل کے لیے رجوع یا تجدید نکاح کی  شرعاًاجازت نہیں ،بلکہ عورت پر عدت گزارنا لازم ہے ۔ طلاق  کے واقع ہونے کے  لیے گواہ یا کسی اور کا موجود ہونا لازم نہیں ، جب سائل نے تین بار طلاق دے دی ہے تو طلاق واقع ہوچکی ہے ۔

عورت کی عدت(اگر حمل نہ ہو تو )تین ماہواریاں ہیں، تین طلاقوں کے بعد جب تین ماہواریاں مکمل ہوں گی تو عورت کی عدت ختم ہوجائے گی،اور عورت کو دوسری جگہ نکاح کرنے کی شرعاً اجازت ہوگی۔ 

ارشادِ ربانی ہے:

"{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ}." (البقرة: 230)

"ترجمہ:اگر بیوی کو تیسری طلاق دے دی  تو جب وہ عورت دوسرے سے  نکاح  نہ کرلے اس وقت تک وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہوگی۔ (بیان القرآن)"

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير."

(کتاب الطلاق،الباب السادس فی الرجعۃ و فیما تحل بہ المطلقۃ وما یتصل بہ، فصل فیما تحل بہ المطلقہ ومایتصل بہ، ج:1،ص:473:ط:رشیدیہ)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠]".

(کتاب الطلاق ،فصل :حکم الطلاق البائن،ج:3،ص:187، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144512100297

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں