بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی سے’’میں تجھے طلاق دوں‘‘ کہنے کا حکم


سوال

بیوی سے بحث مباحثے کے دوران جب کہ بیوی کے والد، والدہ اور بھائی بھی موجود تھے، میں نے محض اسے ڈرانے کی نیت سے دو مرتبہ یوں کہا کہ:

’’میں تجھے طلاق دوں!میں تجھے طلاق دوں !‘‘تھوڑی دیر بعد تیسری بار میں نے کہا کہ ’’تیسری دفعہ بولوں ؟!‘‘، میری نیت طلاق دینے کی نہیں تھی، بلکہ صرف ڈرانا مقصود تھا، آیا اس صورت میں طلاق واقع ہوئی ہے؟ اس صورت میں میری شرعی ر اہ نمائی کیجیے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل نے اپنی بیوی سے دو بار یہ کہا ہے کہ ’’میں تجھے طلاق دوں !؟‘‘ ،تھوڑی دیر بعد تیسری بار میں نے کہا کہ ’’تیسری دفعہ بولوں ؟!‘‘اور ان الفاظ سے سائل کا مقصود چوں کہ طلاق کی دھمکی دینا تھا،لہذااگر ان الفاظ کے بعد سائل نے طلاق نہ  دی ہو تو محض ان الفاظ سے سائل کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ، نکاح بدستور قائم ہے، البتہ اس طرح کے الفاظ سے بھی سائل کو اجتناب کرنا لازم ہے۔

البحرالرائق میں ہے:

" وليس منه أطلقك بصيغة المضارع."

(کتاب الطلاق ، باب الفاظ الطلاق نج:3،ص:271ط: دار الكتاب الإسلامي)

ردالمحتار میں ہے:

"أن التهديد بالطلاق في معنى عرض الطلاق عليها؛ لأن قوله أطلقك إن فعلت كذا بمنزلة قوله: أبيع عبدي هذا."

(کتاب العتق ، فرع :قال أحد شريكين للآخر بعت منك نصيبي،ج:3،ص:669،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401102073

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں