بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میں تجھے فارغ کردوں گا، میں تجھے فارغ کروں؟ اور کنایہ کے دیگر الفاظ سے طلاق واقع ہونے کا حکم


سوال

میں بلڈ پریشر کا مریض ہوں ، میں اور میری زوجہ کی آپس میں لڑائی رہتی ہے اور بحث مباحثہ میں بات آ گے تک نکل جاتی تھی،  میں نے  غصہ میں اپنی زوجہ کو یہ کہہ دیا کہ"میں تجھے فارغ کر دوں گا ، اور" میں تجھے فارغ کروں؟  "، "میری نظروں سے دور چلی جاؤ"،"کچھ دن کے لیے میری جان چھوڑو ،  اپنے میکے یعنی گھر چلی جاؤ"میری دو بیٹیاں ہیں،  ایک  ایک سال کی ہے، اور ایک دو  سال کی، کیا ان الفاظ سےمیری طلاق  ہو گئی یا نہیں؟

 مجھے  پہلے ان الفاظ سے طلاق کے بارے میں بالکل علم نہیں تھا،  اس بات کا اللہ  گواہ ہے ،یہ  بتائیں کہ  کیا طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟  اگر ہوگئی ہے تو کیا ہم دوبارہ  رضامندی سے نکاح کرسکتے ہیں؟ کیوں کہ ہم   دونوںنکاح پر راضی ہیں ۔

نوٹ: میری ان الفاظ سے طلاق کی بالکل بھی نیت نہیں تھی، اور جب میں نے یہ الفاظ کہے تھے تو اس وقت طلاق کا تذکرہ بھی نہیں چل رہا تھا۔

جواب

صورتِ مسئولہ  میں اگر واقعۃً سائل نے طلاق کی نیت کے بغیر  یہ کہا تھا کہ:  "میری نظروں سے دور چلی جاؤ"،"کچھ دن کے لیے میری جان چھوڑو ،  اپنے میکے یعنی گھر چلی جاؤ"  تو ان الفاظ سے سائل کی بیوی پر کوئی طلاق واقع  نہیں ہوئی ہے ،  اور :"میں تجھے فارغ کر دوں گا"یہ مستقبل میں طلاق دینے  کی دھمکی ہے، اس  سے طلاق واقع نہیں ہوئی ، اور "میں تجھے فارغ کروں؟" یہ طلاق دینے کے متعلق سوال ہے، اس سے بھی طلاق واقع نہیں ہوئی، لہٰذا سائل کی بیوی پر مذکورہ الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں  ہوئی ہے،  اس لیے تجدید نکاح کی ضرورت نہیں ہے، تاہم  سائل کو چاہیے کہ آئندہ  ایسے الفاظ ادا  کرنے سے گریز کرے۔

الفتاوی الہندیۃ میں ہے:

"في المحيط: لو قال بالعربية ‌أطلق لا يكون طلاقا إلا إذا غلب استعماله للحال فيكون طلاقا."

(كتاب الطلاق، الباب الثاني في إيقاع الطلاق، الفصل السابع في الطلاق بالألفاظ الفارسية، ج:1، ص:384، ط: دار الفكر) 

رد المحتار میں ہے:

"(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر."

(كتاب الطلاق، ركن الطلاق، ج:3، ص:230، ط: ايچ ايم سعيد)

الدر المختار میں ہے:

"فالحالات ثلاث: رضا وغضب ومذاكرة والكنايات ثلاث ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب، أو لا ولا  (فنحو اخرجي واذهبي وقومي) تقنعي تخمري استتري انتقلي انطلقي اغربي اعزبي من الغربة أو من العزوبة (يحتمل ردا، ونحو خلية برية حرام   بائن) ومرادفها كبتة بتلة (يصلح سبا، ونحو اعتدي واستبرئي رحمك، أنت واحدة، أنت حرة، اختاري أمرك بيدك سرحتك، فارقتك لا يحتمل السب والرد، ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول له، ....(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط) ويقع  بالأخيرين وإن لم ينو لأن مع الدلالة لا يصدق قضاء في نفي النية لأنها أقوى لكونها ظاهرة، والنية باطنة ولذا تقبل بينتها على الدلالة لا على النية إلا أن تقام على إقراره بها عمادية.

(قوله خلية) بفتح الخاء المعجمة فعيلة بمعنى فاعلة: أي خالية إما عن النكاح أو عن الخير ح: أي فهو عن الأول جواب، وعلى الثاني سب وشتم، ومثله ما يأتي."

(كتا ب الطلاق، باب الكنايات، ج:3، ص:298-302، ط: ايچ ايم سعيد)

الفتاوی الہندیۃ میں ہے:

"ولو قال ‌ابعدي عني ونوى الطلاق يقع كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الطلاق، الباب الثاني في إيقاع الطلاق، الفصل الخامس في الكنايات في الطلاق، ج:1، ص:376، ط: دار الفكر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الثاني، فالصحيح من الرواية أنه قال لها: ‌الحقي ‌بأهلك، وهذا من كنايات الطلاق عندنا."

(كتاب النكاح، فصل شروط بقاء النكاح، ج:2، ص:328، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101984

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں