بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جمادى الاخرى 1446ھ 04 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

میں طلاق دیتا ہوں ، طلاق ،طلاق کہنے کا حکم


سوال

میں نے شدید غصے میں نیند سے اٹھ کر اپنی بیوی سے لڑائی کے دوران بلوچی میں یہ الفاظ کہے ہیں "من طلاق دیاں ، طلاق ، طلاق "،یعنی میں طلاق دیتا ہوں ، طلاق ،طلاق۔ تو کیا ان الفاظ سے طلاق واقع ہوگئی ہے یا نہیں ؟اور میں رجوع کرنا چاہتا ہوں یا رجوع کی گنجائش ہے یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے اپنی بیوی کو بلوچی میں ان الفاظ سے طلاق دی ہے کہ :"من طلاق دیاں ، طلاق ، طلاق "،یعنی میں طلاق دیتا ہوں ، طلاق ،طلاق،تو  اس سے سائل کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں ، بیوی اپنے شوہر (سائل) پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، اب  سائل کے لیے شرعاً رجوع یا تجدید نکاح کی گنجائش نہیں ہے ۔ مطلقہ اپنی عدت(حمل کی صورت میں بچے کی پیدائش ورنہ پوری تین ماہواریاں )گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

 ارشادِ ربانی ہے:

"{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ}." (البقرة: 230)

ترجمہ:"اگر بیوی کو تیسری طلاق دے دی  تو جب وہ عورت دوسرے سے  نکاح  نہ کرلے اس وقت تک وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہوگی۔ "(بیان القرآن)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير."

(کتاب الطلاق،الباب السادس فی الرجعۃ و فیما تحل بہ المطلقۃ وما یتصل بہ، فصل فیما تحل بہ المطلقہ ومایتصل بہ،ج:1،ص:473، ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144511102682

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں