بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کے نگران کا تعلیمی اوقات میں بیان اور نکاح پڑھانا ،اور مسجد کی رہائش گاہ میں الگ سے مدرسہ کھولنا


سوال

 مسجدومدرسه کی  انتظامیہ نے ایک امام  صاحب کا تقرر کیا اور انہیں امامت کے علاوہ مدرسہ کی نظامت کی  اور انکی اہلیہ کو شعبہ بنات کی نظامت کی ذمہ داری  سونپی گئی تھی اور چند عرصے تک وہ ذمہ داری صحیح طور پر ادا  کرتے رہے ،لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مدرسہ کے  تعلیمی اوقات میں بیانات اور نکاح پڑھانےکے لیے جانا شروع کردیا چنانچہ مسجد ومدرسہ کی انتظامیہ کی جانب سے انہیں تنبیہ کی گئی تو مذکورہ امام صاحب اور ان کی اہلیہ نے مدرسے کے انتظامات سنبھالنے سے معذرت کرلی۔

1.اب سوال یہ ہے کہ کیا مذکورہ امام صاحب کا مدرسہ کےتعلیمی اوقات میں دیگر پروگرام میں شرکت کرنا درست ہے ؟

2.نیز مسجد اور مدرسہ کی انتظامیہ کی جانب سے امام صاحب کو رہائش کے لیے مسجد کا گھر دیاگیا تھا،جوکہ تعمیر ہی مسجد کے امام اور اساتذہ کی رہائش کے لیے کی گئی ہے ، امام صاحب کی جانب سے مدرسہ کی  نظامت سنبھالنے سے معذرت کے بعد مسجد انتظامیہ کی جانب سے رہائش کے لیے دیے گئے گھر میں مدرسہ کھولنا جب کہ الگ سے مدرسہ موجو د ہے  کیا درست ہے ؟

وضاحت : مسجد انتظامیہ نے گھر امام صاحب کو صرف رہائش کے لیے دیاتھا۔

جواب

1.امام صاحب نے  چونکہ کمیٹی کے اعتراض پر  استعفی دے دیا ہے اس لیے اس سوال کی حاجت نہیں معلوم ہوتی ۔

2. صورت مسئولہ میں مسجدومدرسہ کی انتظامیہ کی جانب سے  امام صاحب کو جو گھررہائش  کے لیے دیاگیا ہے ،ا مام صاحب کوانتطامیہ کی   اجازت کے بغیر اس رہائش گاہ میں مدرسہ کھولنے کا اختیار شرعاً حاصل نہیں ہے، با لخصوص جب کہ مسجد کے ساتھ الگ سے مدرسہ بھی موجود ہولہذا  اگر امام صاحب کسی نئے مدرسہ کی حاجت محسوس کریں تو پہلے انتطامیہ کو اعتماد میں لیں ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"قالو مراعاة غر ض الواقفين واجبة."

(كتاب الوقف ،4 / 445، ط: سعید)

وفيه ايضا:

"فإن شرائط الوقف معتبرة إذ لم تخالف الشرع وهو مالك فله أنيجعل ماله حيث شاء فلم يكن معصية."

(كتاب الوقف ، مطلب شرائط الوقف معتبرة إذا لم تخالف الشرع، 4/ 343، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101428

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں