بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کی آمدنی کا مصرف


سوال

 ہماراادارہ اساتذہ اور عملے کو بعض سہولیات دیتاہے، مثلًا مدرسے کی گاڑیاں ہیں، اور ضابطہ یہ ہے کہ اگر کسی استاذ کو ہنگامی طور پر گاڑی چاہیے ہو تو وہ دفتر مالیات میں گاڑی کا کرایہ جمع کرواکر گاڑی استعمال کرسکتاہے، اور پیٹرول وہ اپنا ذاتی استعمال کرے گا، اسی طرح بعض رہائشی مکانات اساتذہ کو کرائے پر دیے جاتے ہیں، یا ادارے کے پرنٹر یا فوٹو اسٹیٹ مشین سے کوئی استاذ ذاتی پرنٹ یا فوٹو اسٹیٹ نکالے یا مدرسے کا کوئی کاغذ استعمال کرے تو عملہ اس کا معاوضہ دے کر استعمال کرسکتاہے، ان اشیاء سے حاصل شدہ رقم کو کن کن مصارف میں صرف کیا جاسکتاہے؟ کیا جن مصارف سے حاصل شدہ آمدن ہے اسی میں صرف کرنا لازم ہوگا، مثلًا گاڑی کا کرایہ گاڑیوں کی مرمت وغیرہ میں ہی لگے گا، یا گاڑی کی ضروریات پوری کرنے کے بعد دیگر مصارف میں بھی استعمال کیا جاسکے گا؟ 

جواب

صورت مسئولہ میں مدرسہ کی کسی چیز کے استعمال کرنے پراس کاجومعاوضہ حاصل ہو یامدرسہ کی کسی چیزکی آمدنی حاصل ہومثلاً مدرسہ کی گاڑی یااساتذہ کی رہائشی مکانات کاکرایہ ہو یا فوٹواسٹیٹ  مشین کی آمدنی ہویا کوئی اورذریعہ آمدنی ہو ،اس کو مدرسہ کے تمام  ضروریات واخراجا ت میں استعمال کیاجاسکتاہے، جس چیز سے آمدنی ہو صرف اسی میں استعمال کرنا ضروری نہیں  الایہ کہ واقف نےاس بات کی  صراحت  کردی  ہو کہ فلاں چیز میں وقف کررہاہوں اس کے تمام منافع فلاں مصرف میں استعمال کئے جائیں تو اس صورت میں صرف اس مصرف میں استعمال کرناضروری ہوگا  دوسرے مصارف میں استعمال کرنادرست نہیں ہوگا بصورت دیگر تمام مصارف میں استعمال کرنا درست ہے۔

الفتاویٰ الہندیۃمیں ہے:

وسئل الخجندي عن قيم المسجد ‌يبيح ‌فناء المسجد ليتجر القوم هل له هذه الإباحة؟ . فقال: إذا كان فيه مصلحة للمسجد فلا بأس به إن شاء الله تعالى قيل: له لو وضع في الفناء سررا فآجرها الناس ليتجروا عليها وأباح لهم فناء ذلك المسجد هل له ذلك فقال: لو كان لصلاح المسجد فلا بأس به إذا لم يكن ممرا للعامة۔

( کتاب الکراہیۃ / الباب الخامس في آداب المسجد/ج:5/ص:320/ط:رشیدیہ)

الدرالمختار میں ہے:

(ويبدأ من غلته بعمارته) ثم ما هو أقرب لعمارته كإمام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايتهم  ثم السراج والبساط كذلك إلى آخر المصالح وتمامه في البحر (وإن لم يشترط الوقف) لثبوته اقتضاء۔

وكتب تحتہ فی الشامیۃ:

مطلب عمارة الوقف على الصفة التي وقفه [تنبيه] لو كان الوقف على معين فالعمارة في ماله كما سيأتي بقدر ما يبقى الموقوف على الصفة التي وقفه، فإن خرب يبني كذلك ولا تجوز الزيادة بلا رضاء ولو كان على الفقراء فكذلك، وعند البعض تجوز والأول أصح هداية ملخصا وبه علم أن عمارة الوقف زيادة على ما في زمن الواقف لا تجوز بلا رضا المستحقين۔۔۔۔فيقدم أولا ‌العمارة ‌الضرورية ثم الأهم فالأهم من المصالح والشعائر بقدر ما يقوم به الحال، فإن فضل شيء يعطى لبقية المستحقين إذ لا شك أن مراد الواقف انتظام حال مسجده أو مدرسته لا مجرد انتفاع أهل الوقف۔

(کتاب الوقف/ج:4/ص:366۔368/ط:سعید)

 البحر الرائق ميں ہے:

ولو وقف ثورا لإنزاء بقرهم لا يصح ثم إذا عرف جواز وقف الفرس والجمل في سبيل الله تعالى.فلو وقفه على أن يمسكه ما دام حيا إن أمسكه للجهاد له ذلك لأنه لو لم يشترط كان له ذلك لأن لجاعل فرس السبيل أن يجاهد عليه وإذا أراد أن ينتفع به في غير ذلك ليس له ذلك وصح جعله للسبيل يعني يبطل الشرط ويصح وقفه ولا يؤاجر فرس السبيل إلا إذا احتيج إلى نفقته فيؤاجر بقدر ما ينفق عليه قال في الخلاصة وهذا دليل على أن المسجد إذا احتاج إلى نفقته ‌تؤاجر ‌قطعة منه بقدر ما ينفق عليه اهـ

 (کتاب الوقف،وقف المشاع/ج:5/ص:219/ط:دار الکتاب)

وفیہ ایضاً:

وبهذا علم أن قولهم ‌شرط ‌الواقف كنص الشارع ليس على عمومه قال العلامة قاسم في فتاواه أجمعت الأمة أن من شروط الواقفين ما هو صحيح معتبر يعمل به ومنها ما ليس كذلك ونص أبو عبد الله الدمشقي في كتاب الوقف عن شيخه شيخ الإسلام: قول الفقهاء: نصوصه كنص الشارع يعني في الفهم والدلالة لا في وجوب العمل۔

(شروط الواقفین/ج:5/ص:265/ط:دارالکتاب)

فتاویٰ شامی میں ہے:

مطلب في قولهم ‌شرط ‌الواقف كنص الشارع(قوله: قولهم ‌شرط ‌الواقف كنص الشارع) في الخيرية قد صرحوا بأن الاعتبار في الشروط لما هو الواقع لا لما كتب في مكتوب الوقف، فلو أقيمت بينة لما لم يوجد في كتاب الوقف عمل بها بلا ريب لأن المكتوب خط مجرد ولا عبرة به لخروجه عن الحجج الشرعية. اهـ

(فصل فی اجارۃ الوقف/ج:4/ص:433/ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144302200037

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں