بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مبیع میں عیب ہو لیکن اس میں زیادتی کی وجہ واپسی ممکن نہ ہو تو قیمت کم کی جاسکتی ہے


سوال

ایک شخص کو دودھ والی گائے کی ضروت تھی  تو اس نے ایک دوسرے  آدمی سے ایک  گابھن گائے خریدی ، بیچنے والے نے یہ باور کرایا کہ یہ گائے سات آٹھ دن میں بچہ دیکر  دودھ دینے لگی گی، مشتری  اس بات کو دیکھتے ہوئے  مہنگی  قیمت کے بدلے  گائے خرید کر گھر لے  گیا،انتظار کرتے کرتے   بچہ جننے میں  تقریبًا دو ماہ  کے  قریب وقت لگ گیا ،  واضح رہے کہ  اتنی مدت والی گابھن گائے  اور جس کا بائع نے بتایا تھا ( یعنی سات آٹھ دن کا  والی )  ان دونوں کی قیمتوں بہت فرق ہوتا ہے۔اب پوچھنا یہ ہے کہ شرعا خریدار کے لیے کیا حکم ہے  ؟اب  گائے  نے خریدار  کے پاس بچہ جنا ہے تو کیا  خریدار  قیمت  کم کرسکتا ہے؟   وضاحت: باقی یہ بات ہر مالک کو  معلوم ہوتا ہے کہ میری گائے کی جفتی     جب سے ہوئی تھی، اس کے اتنی مدت بعد   گائے بچہ دے گی۔

 

جواب

صورتِ مسئولہ  میں چوں کہ مذکورہ شخص نے اگر گائے اس شرط پر خریدی تھی کہ گائے کا بچہ قریب الولادۃ ہے اور بازار میں اس طرح  کی گائے کی قیمت زیادہ بھی ہوتی ہے ، لیکن بعد میں گائے نے دو ماہ کے بعد بچہ جنا، جس کی قیمت  بنسبت پہلی والی گائے کے کافی کم ہوتی ہے ایسی صورت میں مذکورہ شخص کو یہ حق  حاصل ہے کہ قیمت میں جتنا فرق ہے اتنی رقم دو عادل ، تجربہ کار آدمیوں کی رائے سے طے کرکے بائع  سے واپس  لے لے  ۔

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي  ميں هے:

"(قوله في المتن أخذه بالثمن أو تركه) قال الشيخ أبو نصر: والأصل في هذا أن من شرط صفة فوجد المبيع بخلافها وتلك الصفة مما يتفاوت فيها الأغراض تفاوتا كثيرا فإن المشتري بالخيار مثل أن يشتري حمارا على أنه أتان فإذا هو ذكر أو شاة على أنها نعجة فإذا هي فحل ومسائل الكتاب من هذا الجنس ووجه ذلك أنه وجد المبيع على خلاف الصفة التي شرطها وله في الصفة غرض فإذا فاته ثبت له الخيار كما لو وجد بالمبيع عيبا"

(كتاب البيوع ،باب خيار الشرط،ج:4،ص: 23،ط:المطبعة الكبري)

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية میں ہے: 

"رجل اشترى بقرة على أنها لا ترمح ولا تنطح فولدت فإذا هي تنطح وترمح فأراد ردها ليس له ذلك؛ لأنها لما ولدت لم يكن له ردها بل يرجع عليه بنقصان العيب جواهر الفتاوى (أقول) قوله لم يكن له ردها أي؛ لأن الولادة عيب حادث لكن في البزازية أن الولادة في البهائم ليست بعيب إلا أن توجب نقصانا وعليه الفتوى"

(کتاب البیوع ،باب الخیارات،ج:1،ص: 256 ،ط:دارالمعرفة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(اشترى عبدا بشرط خبزه أو كتبه) أي حرفته كذلك (فظهر بخلافه) بأن لم يوجد معه أدنى ما ينطلق عليه اسم الكتابة أو الخبز (أخذه بكل الثمن) إن شاء (أو تركه) لفوات الوصف المرغوب فيه ولو ادعى المشتري أنه ليس كذلك لم يجبر على القبض حتى يعلم ذلك وكذا سائر الحرف اختيار، ولو امتنع الرد بسبب ما قوم كاتبا وغير كاتب ورجع بالتفاوت في الأصح۔"

(کتاب البیوع ،مطلب فی خیار التعین،ج:4، ص:587،ط:سعید)

دررالحکام میں ہے:

"ليس للمشتري حق حط الثمن في مقابلة الوصف الفائت المشترط إلا أنه إذا ‌تعذر ‌رد ‌المبيع إلى البائع بعذر مشروع يحق للمشتري حط الثمن فيقوم المبيع على تقدير تحقق الوصف المرغوب فيه ثم يقوم عاريا عن الوصف۔"

(درر الحكام في شرح مجلة الأحكام1/ 307،ط:دارالجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100158

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں