بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مباشرت کے طریقے کے حوالے سے راہ نمائی


سوال

مرد کا اپنی بیوی کی خواہش پر،  اپنی بیوی کے اوپر لیٹ کر اگلی شرم گاہ میں ہم بستری کرنا،  کیا ایسا کیا جاسکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے بیوی کے پورے بدن سے نفع اٹھانے کی اجازت دی ہے، البتہ  پچھلے مقام میں صحبت کرنا بیوی سے بھی حرام ہے کہ وہ جماع کرنے کا محل اور مقام ہی نہیں، اس لیے صحبت اگلے حصے ہی میں جائز ہے اور اس کے لیے جو بھی طریقہ اختیار کیا جائے شریعت میں اس کی ممانعت نہیں، البتہ   اچھا طریقہ   اور بہتریہ کے  ہر جان دار میں فطری طریقہ ہے کہ مرد اوپر رہے اور عورت نیچے ہو،  اس میں جانبین سے لذت کا حصول زیادہ ہے،  نیز یہ طریقہ استقرارِ حمل کے لیے بھی معین ہوگا؛ لہذا صورتِ  مسئولہ میں  بیوی  کی خواہش کے مطابق   مذکورہ طریقہ پر جماع کرنا درست ہے۔

قرآن کریم کاارشاد ہے:

﴿ فَلَمَّا تَغَّشَاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیْفًا﴾ (الأعراف:۱۸۸ )

ترجمہ:  "جب مرد نے عورت کو ڈھانپ لیا تو اسے ہلکا سا حمل رہ گیا۔"

سنن النسائی  میں ہے:

"عن ابن سيرين، عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «‌إذا ‌قعد ‌بين شعبها الأربع ثم اجتهد فقد وجب الغسل."

( باب وجوب الغسل إذا التقى الختانان،١١١/١،ط : المكتبة التجارية الكبرى بالقاهرة)

ترجمہ: "مرد جب فرج کے چاروں جانب کے درمیان بیٹھ جائے، پھر مشقت میں ڈالے عورت کو"۔

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"عن جابر، أن اليهود قالوا للمسلمين: من أتى امرأته وهي مدبرة جاء ولده أحول; فأنزل الله تعالى: {نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم ‌أنى ‌شئتم} فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "مقبلة ومدبرة ما كان في الفرج" وروت حفصة بنت عبد الرحمن عن أم سلمة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "في صمام واحد". وروى مجاهد عن ابن عباس مثله في تأويل الآية، قال: "إنما يعني كيف شئت في موضع الولد."

(مطلب: الدهن المتنجس يجوز الانتفاع به بغير الأكل،٤٢٧/١،ط : دار الكتب العلمية)

زاد المعاد فی ھدی خیر العباد میں ہے:

"وأحسن أشكال الجماع ‌أن ‌يعلو ‌الرجل ‌المرأة، مستفرشا لها بعد الملاعبة والقبلة، وبهذا سميت المرأة فراشا، كما قال صلى الله عليه وسلم: ( «الولد للفراش» ) ، وهذا من تمام قوامية الرجل على المرأة، كما قال تعالى: {الرجال قوامون على النساء} [النساء: 34] [النساء: 34] ، وكما قيل."

‌‌[أشكال الجماع،234/4،ط: مؤسسة الرسالة]

موسوعژ الفقہ الاسلامی میں ہے:

"وأحسن أشكال الجماع ‌أن ‌يعلو ‌الرجل ‌المرأة مستفرشاً لها بعد الملاعبة والتقبيل. وأردأ أشكال الجماع أن تعلوه المرأة أو يجامعها على ظهره، لأن المني في هذه الحال يتعسر خروجه كله، فربما بقي في العضو منه فيتعفن، وربما سال إلى الذكر رطوبات تضره من فرج المرأة، ولأن الرحم لا يتمكن من الاشتمال على ماء الرجل لتخليق الولد، ولما فيه من مخالفة الفطرة التي طبع الله عليها الذكور والإناث."

(‌‌ آداب الزفاف،115/4،ط : بيت الأفكار الدولية)

الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:

"وأما قوله تعالى {فأتوا حرثكم ‌أنى ‌شئتم} [البقرة: 223] أي كيف شئتم ومتى شئتم مقبلات ومدبرات ومستقلبات وباركات بعد أن يكون في الفرج ولأن الله تعالى سمى الزوجة حرثا فإنها للولد كالأرض للزرع، وهذا دليل على تحريم الوطء في الدبر؛ لأنه موضع الفرث لا موضع الحرث."

‌‌[كتاب الطهارة،باب الحيض،٣٠/١،ط : المطبعة الخيرية]

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144503102420

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں