بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

معذوری کی حالت میں قضا روزوں کے فدیہ دینے کا حکم


سوال

معذوری کی حالت میں قضا روزے کا فدیہ ادا ہو جائے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی شخص رمضان المبارک  کا  روزہ نہ رکھ سکا تو اس کے ذمہ  وہ  روزہ  اداکرنا ہی لازم ہے ،فدیہ ادا  کرنا جائز نہیں،البتہ  اگر کوئی ایسی معذوری یا بیماری  لاحق ہو گئی ہے  كہ   مسلمان ماہر دین دار ڈاکٹر نے ا سے یہ بتایاہے  کہ  اگر  وہ  روزہ رکھے گا  تو اس کی بیماری  بڑھے گی  یا موت واقع ہونے کا خطرہ ہے   اور اس بیماری سے صحت یابی کی امید بھی  نہیں ہے  یا کوئی شخص اتنا عمر رسیدہ ہو گیا ہے کہ اس میں روزہ  رکھنے کی طاقت  نہیں ہے  ،تو   ان صورتوں  میں    وہ  اپنی زندگی میں روزے کے بدلے  فدیہ ادا کرے،  اور ایک روزے کا فدیہ   کم از کم آدھا صاع  یعنی  پونے دو  سیر گندم      ہے ،یا اس کی موجودہ قیمت ہے۔

نیز یہ  بات یاد رہے کہ اگر   مریض صحت  یاب ہو جاتا ہے  یا عمر رسیدہ شخص میں روزہ رکھنے کی    طاقت  پیدا ہو جاتی ہے   تو  پھر      فدیہ  صدقہ ہو جائے گا  اور   ان روزوں کا قضاء لازم ہو گا ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"المريض إذا تحقق اليأس  من الصحة  فعليه الفدية  لكل يوم  من المرض ۔۔۔فلو أعطى هنا مسكينا صاعا عن يومين جاز لكن في البحر عن القنية أن عن أبي يوسف فيه روايتين وعند أبي حنيفة لا يجزيه كما في كفارة اليمين، وعن أبي يوسف لو أعطى نصف صاع من بر عن يوم واحد لمساكين يجوز قال الحسن وبه نأخذ اهـ

( کتاب الصوم، باب مايفسد الصوم ومالايفسده،  فصل في العوارض، ج:2، ص:427، ط:سعيد)

"فتح القدیر "میں ہے :

"ولا شك أن كل من سمع أن الشيخ الفاني ‌الذي ‌لا ‌يقدر ‌على ‌الصوم يجزي عنه الإطعام علم أن سبب ذلك عجزه عجزا مستمرا إلى الموت، فإن الشيخ الفاني الذي علق عليه هذا الحكم هو الذي كل يوم في نقص إلى أن يموت فيكون الوارد في الشيخ الفاني واردا في المريض الذي هو بتلك الصفة۔

(کتاب الصوم،  باب: مايوجب القضاء والكفارة ،فصل : كان مريضاّ في رمضان فخاف إن صام إزداد مرضه ج :2، ص:358، ط:دار الفكر  )

"فتاوی ھنديہ" ميں ہے :

"ومنها: كبر السن) فالشيخ الفاني الذي لا يقدر على الصيام يفطر ويطعم لكل يوم مسكينا كما يطعم في الكفارة كذا في الهداية. والعجوز مثله كذا في السراج الوهاج. وهو الذي كل يوم في نقص إلى أن يموت كذا في البحر الرائق. ثم إن شاء أعطى الفدية في أول رمضان بمرة، وإن شاء أخرها إلى آخره كذا في النهر الفائق،ولو قدر على الصيام بعد ما فدى بطل حكم الفداء الذي فداه حتى يجب عليه الصوم هكذا في النهاية. "

(کتاب الصوم، الباب الخامس  في الأعذار التي تبيح الأفطار ج:1، ص :208، ط: دار الفكر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144508100842

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں