بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

معذور بہن کی کفالت کی ذمہ داری اور اس کی جائیداد کا حکم


سوال

 اگر کوئی شخص جس کی 4 بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، ان چار بیٹیوں میں سےایک بیٹی کو مرگی کی بیماری ہے اور وہ کھانے پینے کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں سمجھتی ، 2000ء تک اس کی کفالت باپ نے کی ، والد کی وفات کے بعد اس کی ماں نے کفالت کی ، 2019 ء میں والدہ کی بھی وفات ہوئی ، والدہ کی  حیات کے وقت ماں اور اس بہن پر بھائی خرچ کرتا تھااب سب بہن بھائی شادی شدہ ہیں، اب سوال یہ ہے کہ اس بہن کا خیال رکھنا کس کی ذمہ داری ہے ؟ بہنوں کی یا بھائی کی ؟( 2) ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک ہفتہ بہنوں کے ساتھ رہے اور ایک ہفتہ بھائی کے ساتھ رہے ؟( ‌3)باپ کی میراث میں سے باقی بہنوں نے اپنا اپنا حصہ لےلیا لیکن اس بیمار بہن کا حصہ اس کے بھائی نے کسی کو بتائے بغیر انگوٹھا لگوا کر لے لیا کیوں کہ وہ کہہ رہا ہے کہ اس کا سارا خرچہ اب تک میں نے کیا ہے اس لیے میں اس کا حصہ لوں گا، کیا یہ جائز ہے ؟ (4)اگر وہ بھائی اس بہن کو دوائیاں یا کھانا وقت پر نہ دے یا اس بھائی سے دیگر معاملات ادھر ادھر ہو جائیں تو یہ ظلم کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں ؟

جواب

(1،2،3)صورتِ مسئولہ میں  والدین کے انتقال کے بعدمعذور بہن کی کفالت   ان تمام ورثاء پر لازم ہے ،جو بہن کے شرعی ورثاءبنتے ہیں ،ان میں بھائی بھی داخل ہے اور بہنیں بھی داخل ہیں، معذوربہن کو ترکہ سےملنےوالےحصے کو  بھائی اپنی ذاتی استعمال میں نہیں لاسکتا،بلکہ مذکورہ معذوربہن کاحصہ اس کےنان ونفقہ میں ہی خرچ کیاجائےگا،اگروہ حصہ کی ساری رقم خرچ ہو جا ئےتواس کی خیال داری اورنان ونفقہ کاخرچہ بھائی  اور بہنیں مل کراپنے اپنے شرعی میراث کے حصول کے اعتبار سے برداشت کریں گی،اور جب تک اس معذور بہن کا اپنا ذاتی مال موجود ہے تو اس کا نان ونفقہ اسی کے مال میں سے ادا کیا جائے گا،الاّ یہ کہ دیگر بھائی بہن اگر اپنی طرف سے اس کا نان ونفقہ برداشت کریں تو یہ ان کی طرف سے احسان اور تبرع ہوگا۔

(4)بھائی کے ساتھ بہنوں   پر بھی لازم ہے کہ وہ معذور بہن کی ہر طرح سے دیکھ بھال کریں،اور اس پر اللہ تعالیٰ سے دنیا وآخرت میں کامیابی کی امید رکھیں،اس دوران اگر بغیر کسی نیت و ارادہ کے کبھی  سستی ہوجائے تو اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) تجب أيضا (لكل ذي رحم محرم صغير أو أنثى) مطلقا (ولو) كانت الأنثى (بالغة) صحيحة (أو) كان الذكر (بالغا) لكن (عاجزا) عن الكسب (بنحو زمانة)  كعمى وعته وفلج، زاد في الملتقى والمختار: أو لا يحسن الكسب لحرفة أو لكونه من ذوي البيوتات أو طالب علم (فقيرا) ....... (بقدر الإرث) - {وعلى الوارث مثل ذلك} [البقرة: 233]- (و) لذا (يجبر عليه) . ثم فرع على اعتبار الإرث بقوله (فنفقة من) أي فقير (له أخوات متفرقات) مو سرات (عليهن أخماسا) ولو إخوة متفرقين فسدسها على الأخ لأم والباقي على الشقيق (كإرثه) وكذا لو كان معهن أو معهم ابن معسر؛ لأنه يجعل كالميت ليصيروا ورثة."

و فی الردالمحتار:

"قوله كعمى إلخ) أفاد أن المراد بالزمانة العاهة كما في القاموس. وفي الدر المنتقى أن الزمانة تكون في ستة: العمى وفقد اليدين أو الرجلين أو اليد والرجل من جانب والخرس والفلج. اهـ ....... قوله وعته) بالتحريك: نقصان العقل ....... (قوله بقدر الإرث) أي تجب نفقة المحرم الفقير على من يرثونه إذا مات بقدر إرثهم منه."

( كتاب الطلاق، باب النفقۃ، 3 /  627 (الی) 629، ط:سعيد)

تبیین الحقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (ولقريب محرم فقير عاجز عن الكسب ‌بقدر ‌الإرث لو موسرا) يعني تجب النفقة لكل ذي رحم محرم إذا كان فقيرا عاجزا عن الكسب لصغره أو لأنوثته أو لعمى أو لزمانة، وكان هو موسرا لتحقق العجز بهذه الأعذار ، والقدرة عليه باليسار، ويجب ذلك ‌بقدر ‌الإرث لقوله تعالى {وعلى الوارث مثل ذلك} [البقرة: 233] فجعل العلة هي الإرث فيتقدر الوجوب بقدر العلة، وفي قراءة ابن مسعود وعلى الوارث ذي الرحم المحرم، وهي مشهو ر ة فجاز التقييد بها، ويجبر على ذلك لأنه حق مستحق عليه."

(کتاب الطلاق، باب النفقۃ،  3 /  64، ط: المطبعۃ الكبری الأميریۃ،القاهرۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100144

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں