بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

معذور بچی کی دیکھ بال کی خاطر حمل ساقط کرنے کا حکم


سوال

اللہ نے چار بچے دیئے ہیں دو بیٹےاور دو بٹیاں ،بڑا بیٹا ماشاءاللہ جسمانی اور ذہنی لحاظ سے ٹھیک ہے ،دوسرا بیٹا جس کی عمر گیارہ سال ہے جسمانی لحاظ سے بہت کمزور ہے اورعام بچوں سے تھوڑا ذہنی طور پر پیچھے ہے ،پھر بیٹی جس کی عمر آٹھ سال ہےوہ بھی الحمدللہ ٹھیک ہے ،پھر ایک بیٹی ہےجس کی عمر پانچ سال ہےوہ بھی اپنے بھائی کی طرح عام بچوں جیسی نہیں ہے، ابھی تک باتیں نہیں کرتی لیکن اشاروں میں بات سمجھا دیتی ہے اور ابھی اس کو پیمپر بھی کرتی ہوں ، وہ بہت زیادہ الٹی کرتی ہے جس سے اس کے کپڑے ہر وقت گندے ہو جاتے ہیں، بدلانے پڑتے ہیں اور چھوٹے بچوں ہی کی طرح اس کا خیال کرنا پڑتا ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ اس عذرکی وجہ سے ایک ڈیڑھ ماہ کا حمل ختم کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اور اگر مجبوری کی وجہ سےختم کر دیا تو ا س صورت میں گنہگارہوں گے؟  

جواب

واضح رہے کہ حمل اگر چار مہینے کا ہوجائے تو اسے ضائع کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، کیوں کہ چار ماہ کے بعد حمل میں جان پڑجاتی ہے،  اگرحمل چار ماہ سے کم ہو تو  شدید مجبوری کے بغیر اسے ختم کرنا شرعاً جائز نہیں ہے ،شدید مجبوری یہ ہے کہ عورت (حاملہ) اتنی کمزور ہو کہ حمل کی صور ت میں عورت کی جان کو خطرہ ہو اور ماہر دین دار ڈاکٹر کی رائے یہ ہو کہ حمل ختم کرناضروری ہے ورنہ عورت کی جان کو خطرہ ہے تو اس صورت میں (حمل میں ) جان پڑنے سے پہلے اسے ساقط کرنے کی اجازت ہے ، زیرِ نظر مسئلہ میں یہ مجبوری نہیں پائی جاتی، لہٰذا سائلہ کا مذکورہ عذر کی وجہ سے حمل ختم کروانا شرعاً جائز نہیں ،اگر کیا تو گناہ گار ہوگی اور توبہ استغفار کرنا لازم ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الذخيرة: لو أرادت إلقاء الماء بعد وصوله إلى الرحم قالوا إن مضت مدة ينفخ فيه الروح لا يباح لها وقبله اختلف المشايخ فيه والنفخ مقدر بمائة وعشرين يوما بالحديث اهـ قال في الخانية: ولا أقول به لضمان المحرم بيض الصيد لأنه أصل الصيد، فلاأقل من أن يلحقها إثم وهذا لو بلا عذر۔"

(  کتاب الحظر و الاباحۃ،فصل فی النظر و اللمس6/374)

و فیہ أیضا:

"ويكره أن تسقى لإسقاط حملها ... وجاز لعذر حيث لا يتصور.

(قوله ويكره إلخ) أي مطلقا قبل التصور وبعده على ما اختاره في الخانية كما قدمناه قبيل الاستبراء وقال إلا أنها لا تأثم إثم القتل (قوله وجاز لعذر) كالمرضعة إذا ظهر بها الحبل وانقطع لبنها وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاك الولد قالوا يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام الحمل مضغة أو علقة ولم يخلق له عضو وقدروا تلك المدة بمائة وعشرين يوما، وجاز لأنه ليس بآدمي وفيه صيانة الآدمي خانية (قوله حيث لا يتصور) قيد لقوله: وجاز لعذر والتصور كما في القنية أن يظهر له شعر أو أصبع أو رجل أو نحو ذلك۔"

(کتاب الحظر و الاباحۃ،6/429)

وفیہ أیضا:

"وقالوا: يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج.

(قوله: وقالوا إلخ) قال في النهر: بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل؟ نعم يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوماً، وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح وإلا فهو غلط؛ لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة، كذا في الفتح، وإطلاقهم يفيد عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذكورة على إذن الزوج. وفي كراهة الخانية: ولاأقول بالحل إذ المحرم لوكسر بيض الصيد ضمنه؛ لأنه أصل الصيد، فلما كان يؤاخذ بالجزاء فلا أقل من أن يلحقها إثم هنا إذا سقط بغير عذرها اهـ قال ابن وهبان: ومن الأعذار أن ينقطع لبنها بعد ظهور الحمل وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاكه. ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لاتأثم إثم القتل اهـ. وبما في الذخيرة تبين أنهم ما أرادوا بالتحقيق إلا نفخ الروح، وأن قاضي خان مسبوق بما مر من التفقه، والله تعالى الموفق اهـ كلام النهر ."

(کتاب النکاح،باب نکاح الرقیق،مطلب فی اسقاط الحمل ،ج 3 /176ط: ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102103

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں