بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

معذوری کی وجہ سے غسل خانہ میں پیشاب کرنے اور حالتِ جنابت میں حیض آنے کی صورت میں غسل کرنے کا حکم


سوال

1-  بعض معذور یا بیمار احباب کو دورانِ غسل پیشاب آتا ہے اور غسل خانہ ہی میں پیشاب کرنا ضروری ہوتا ہے، تو کیا ایسی معذوری و بیماری میں دورانِ غسل غسل خانے میں  پیشاب کرنابھی وساوس کی پیدائش کا باعث  ہے؟

2- مجامعت سے فراغت کے بعد غسل سے قبل حیض جاری ہو جائے تو ایسی خاتون کو کیا غسل کرنا ضروری ہے،  جب کہ حیض کے ابتدائی ایام میں طبی اعتبار سے بھی غسل نقصان دہ ہے؟

جواب

(۱) دورانِ غسل  پیشاب آجائے اور بیت الخلا بھی اسی احاطے میں ہو تو غسل خانے سے ہٹ کر بیت الخلا میں پیشاب کرنا چاہیے،  اسی طرح اگر بیت الخلا غسل خانے سے باہر، لیکن قریب ہی ہو تو بھی کوشش کی جائے کہ بیت الخلا میں جاکر پیشاب کیا جائے، غسل خانے میں پیشاب کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے، حدیثِ پاک کے مطابق اس سے عام طور پر وسوسے کا مرض لاحق ہوتاہے۔

 تاہم اگر تقاضا شدید ہو یا بیت الخلا دور ہو اور عذر و بیماری کی وجہ سے غسل خانے  میں ہی پیشاب کرنا مجبوری ہو تو  غسل خانہ پختہ فرش یا ٹائل وغیرہ کا ہونے کی صورت میں  وہاں پیشاب کرنے کی اجازت ہوگی، لیکن اس کے بعد اچھی طرح پانی بہا کر اسے پاک کردیا جائے، فقہاءِ کرام نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ غسل خانہ میں پیشاب کرنے سے وسوسہ کی بیماری کا اندیشہ اس صورت میں رہتا ہے جب کہ غسل خانہ سے پیشاب کے باہر نکلنے کا راستہ نہ ہو اور پیشاب وہیں ٹھہر جائے یا غسل خانہ کی زمین کھردری ہونے کی وجہ سے چھینٹے جسم اور کپڑوں پر لگنے کا اندیشہ ہو، یا زمین کچی ہونے کی وجہ سے پیشاب جذب ہوجائے اور غسل کے پانی کی چھینٹوں سے  پیشاب کے اثرات دوبارہ جسم پر پڑنے کا اندیشہ ہو، بہرحال غسل کے دوران پیشاب کرنے کی صورت میں اس کے بعد   جہاں سے غسل چھوڑا تھا وہیں  سے کرسکتے ہیں۔ البتہ اگر بقیہ غسل میں اعضاءِ وضو مکمل نہ دھلے ہوں تو اس کے بعد نماز وغیرہ کی ادائیگی کے لیے مکمل وضو کرنا لازم ہوگا۔ اور اگر پیشاب کرنے کے بعد ازسرِ نو غسل مکمل کیا جائے تو یہ مستحب ہے۔

(۲) جنابت کی حالت میں کسی عورت کو ماہواری آجائے تو اس پر غسلِ جنابت فرض نہیں رہتا؛  اس لیے کہ غسلِ جنابت تو پاکی کے لیے ہوا کرتا ہے اور جب تک وہ عورت ایامِ حیض میں ہے تو پاکی کا تصور ہی نہیں ہوسکتا، لہذا  ایامِ حیض میں عورت  غسلِ طہارت نہیں کرے گی، ایام ختم ہونے پر غسل کرنا پڑے گا، اس لیے ایسی صورت میں ایامِ حیض میں غسلِ جنابت واجب نہیں، البتہ اگر کوئی عورت ماہواری کے ایام میں ویسے ہی غسل کرنا چاہے تو شرعی اعتبار سے اس میں بھی کوئی حرج نہیں،  لیکن یہ غسل غسلِ طہارت نہیں کہلائے گا، اس لئے طبی اعتبار سے غسل نقصان دے ہونے کی صورت میں غسل کو مؤخر کردینا چاہیے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 342):

’’(وكذا يكره) ... (وأن يبول قائمًا أو مضطجعًا أو مجردًا من ثوبه بلا عذر أو) يبول (في موضع يتوضأ) هو (أو يغتسل فيه) لحديث «لا يبولن أحدكم في مستحمه فإن عامة الوسواس منه».

 (قوله: يتوضأ هو) قدر هو ليوافق الحديث و يثبت حكم غيره بطريق الدلالة أفاده ح. (قوله: لحديث إلخ) لفظه كما في البرهان عن أبي داود: «لايبولن أحدكم في مستحمه ثم يغتسل أو يتوضأ فيه، فإن عامة الوسواس منه» والمعنى موضعه الذي يغتسل فيه بالحميم، وهو في الأصل الماء الحار، ثم قيل للاغتسال بأي مكان استحمام؛ وإنما نهي عن ذلك إذا لم يكن له مسلك يذهب فيه البول أو كان المكان صلبا فيوهم المغتسل أنه أصابه منه شيء فيحصل به الوسواس كما في نهاية ابن الأثير. اهـ. مدني‘‘.

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (1/ 87):

’’ المرأة إذا أجنبت ثم أدركها الحيض أو الحائض إذا أجنبت ثم طهرت حتى وجب عليها الاغتسال، فهذا الاغتسال يكون من الجنابة أو الحيض؟ حكي عن الشيخ الإمام الزاهد أبي محمد عبد الرحيم بن محمد الكرميني رحمه الله أنه كان يقول: اختلفت عبارات أصحابنا رحمهم الله: وظاهر الجواب أن الاغتسال يكون منهما جميعاً‘‘.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200829

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں