چار بھائیوں نے مل کر رقم جمع کی اور وہ رقم اپنے والد کو ملکیت کے طور پر دے دی۔ پھر اس رقم میں سے ان ہی چاروں بھائیوں میں سے ایک بھائی نے اپنے والد کی طرف سے حجِ بدل کے لیے لے لی، جبکہ والد حیات ہیں اور معذوری کی وجہ سے خود حج پر جانے سے قاصر ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ:1. کیا اس رقم سے حجِ فرض ہو جائے گا؟2. جو بھائی اس رقم سے حجِ بدل کررہا ہے، کیا وہ رقم اپنے بھائیوں سے مشورہ کر کے خرچ کرے گا یا اپنی مرضی سے؟
1:اگر بھائیوں نے اپنی ذاتی ملکیت سے رقم والد کو بطور ملکیت دے دی تھی، تو وہ رقم شرعاً والد کی ملکیت ہوگئی۔ اب اگر والد صاحب خود حج پر جانے کے قابل نہ ہوں اور وہ ایسی مستقل معذوری میں مبتلا ہوں کہ آئندہ کبھی بھی حج پر جانے کی امید نہ ہو اور کوئی ایک بھائی ان کی طرف سے مذکورہ رقم سے حج بدل کرنا چاہ رہا ہو،تو ایسی صورت میں اگر والد نے صراحتاً حکم دیا ہو ، تو مذکورہ بھائی والد کی طرف سے حجِ فرض ادا کرسکتا ہے، بشرطیکہ باقی تمام شرائطِ وجوب پوری ہوں بصورتِ دیگر یہ حج والد کی طرف سے ادا نہ ہوگا۔
2:چونکہ وہ رقم اب والد کی ملکیت بن چکی ہے، اس لیے اصولی طور پر والد کی طرف سے حج کرنے والا بیٹا اتنی ہی رقم خرچ کرسکتا ہے جتنی حج کی ادائیگی کے لیے ضروری ہو۔ اضافی اخراجات (جیسے غیر ضروری خریداری، اضافی قیام، سیاحت وغیرہ) صرف اسی صورت میں جائز ہوں گے جب والد نےاس کی اجازت دی ہو۔ ورنہ ایسے اخراجات میں والد کی رقم خرچ کرنا جائز نہیں ہوگی ۔
غنیۃ الناسک فی بغیۃ المناسک میں ہے:
"الرابع: الأمر بالحج صريحًا من المحجوج عنه أو من وصيه لو كان ميتا أوصى بالحج وله مال أو دلالة كما إذا كان ميتا وعليه حج القرض ولم يوص به أو أوصى به ولا مال له فإنه تبرع عنه الوارث، وكذا الأجنبي فحج عنه أو أحج، قال أبو حنيفة": يجزئه إن شاء الله تعالى عن حجة الإسلام لوجود الأمر دلالة؛ لأن الميت يأذن بذلك لكل أحد."
(باب الحج عن الغير، فصل في شرائط النيابة في الحج الفرض، تحت عنوان النيابة في العذر الذي لايرجيٰ زواله، ص: 492، ط: دار رائدۃ فی الطباعۃ، لاہور)
وفيه ايضا:
"هي ما يكفي الحاج المامور لذهابه وإيابه إلى بلد الميت منفقا على نفسه بالمعروف من غير تبذير ولا تقتير من طعام وإدام ومنه اللحم وشراب وثياب في الطريق وثوبي إحرام ومركوب..... واستئجار منزل ومحمل وقربة وأدواة وسائر الآلات."
(باب الحج عن الغير، فصل في النفقة، ص: 517،ط: دار رائدۃ فی الطباعۃ، لاہور)
حج کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا میں ہے:
"مرنے والے یا معذور کی طرف سے فرض حج ادا کرنے کے لیے اس کا حکم، اجازت یا وصیت ضروری ہے، حکم، اجازت یا وصیت کے بغیر کسی اجنبی نے حج کیا تو یہ حج حج کرنے والے کا ہوگا،وہ اس کا ثواب جس کو چاہے بخش دے، لیکن میت اور معذور کا فرض حج ادا نہیں ہوگا۔"
(اجازت کے بغیر حج بدل کرنا، ج:1، ص: 83، ط:بیت العمار)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144611101987
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن