بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

معذور محتاج کو زکوۃ دینے کا حکم


سوال

ایک شخص کے پاس ذاتی مکان ہے جس کا ایک یونٹ اس نے کرائے پر دیا ہوا ہے،اس کا کرایہ بیس ہزار ماہانہ آتا ہے لیکن وہ شخص بیماری کی وجہ سے معذور ہو چکا ہے اور جتنا کرایہ آتا ہے اتنی ہی رقم ہر ماہ اس کی دوائیوں پر خرچ ہوجاتی ہے اور اس کے  5 نابالغ بچے بھی ہیں اس کے علاوہ اسکا ذریعہ معاش بھی کوئی نہیں لیکن مکان اس کا ذاتی ہے، کیا ایسے شخص کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  مذکورہ شخص کی ملکیت میں اگر ضرورت سے زائد چاندی کے نصاب کے بقدر رقم نہ ہویعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے بقدر ضرورت سے زائد رقم نہ ہو،نہ ہی مالِ تجارت ہو اور نہ ہی چاندی کے نصاب کے بقدر ضرورت سے زائد سامان ہو ،بلکہ غریب ہواور کرائے کی مد میں جو رقم آتی ہو وہ خرچ ہو جاتی ہو ،نیز مذکورہ شخص سید،ہاشمی،عباسی،علوی،جعفری بھی نہ ہو تو ایسےشخص کو زکوۃ دینا جائز ہے۔

"سنن الترمذي" میں ہے:

"عن النبي صلى الله عليه وسلم:" لا تحل المسألة لغني ولا ‌لذي ‌مرة ‌سوي" وإذا كان الرجل قويا محتاجا ولم يكن عنده شيء، فتصدق عليه أجزأ عن المتصدق."

(ص:35،ج:2،ابواب الزکاۃ،‌‌باب من لا تحل له الصدقة،ط:دار الغراب الإسلامي،بيروت)

"ألفتاوي الهندية" میں ہے:

"منها الفقير وهو من له أدنى شيء وهو ما دون النصاب أو قدر نصاب غير نام وهو مستغرق في الحاجة فلا يخرجه عن الفقير ملك نصب كثيرة غير نامية إذا كانت مستغرقة بالحاجة كذا في فتح القدير."

(ص:187،ج:1،کتاب الزکوۃ،الباب السابع في المصارف،ط:دار الفکر)

"ألمبسوط للسرخسي"میں ہے:

"ومن كان له مسكن، أو خادم ليس له غيره وهو محتاج ‌تحل ‌له ‌الصدقة."

(ص:225،ج:5،کتاب النکاح،باب نفقة ذوي الأرحام،ط:دار المعرفة)

"ألبناية شرح الهداية" میں ہے:

"ولو كانت له دور وحوانيت للغلة وهي لا تكفي عياله فهو من الفقراء عند محمد - رحمه الله - وتحل له الصدقة،...، وعلى هذا الكرم والأراضي إذا كانت غلتها لا تكفي."

(ص:482،ج:3،کتاب الزکوۃ،باب صدقة الفطر،ط:دار الكتب العلمية)

"تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق"میں ہے:

"قال رحمه الله "أو هاشمي" أي لا يجوز دفعها إلى بني هاشم لقوله عليه الصلاة والسلام "إن هذه الصدقات إنما أوساخ الناس وإنها لا تحل لمحمد ولا ‌لآل ‌محمد" رواه مسلم...وفسرهم القدوري فقال هم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب."

(ص:303،ج:1،کتاب الزکوۃ،باب المصرف،ط:الأميرية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144409100377

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں