بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

معذور شرعی کے لیے مسجد جانا/ معذور کے لیے حج پر جانا


سوال

1۔ مجھ میں پیشاب کے قطروں کا اور گیس کا شدید مسئلہ ہے اور بواسیر کا مریض ہوں ،کیا  میں گھر پر ہی نماز کی ادائیگی کرسکتا ہوں یا مسجد میں جانا لازمی ہے؟ میں نے  بہت کوشش کی ہے اپنا علاج کروانے کی ،لیکن کوئی فرق نہیں پڑا۔

2۔ اگر مجھ پر حج فرض ہو تو ایسی صورت میں اسلامی نقطہ نظر میں میرے لئے کیا حکم ہے ؟

جواب

1۔واضح رہے کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا سنت مؤکدہ واجب کے قریب ہے ،احادیث میں اس کی بہت تاکید آئی ہے اور نہ پڑھنے پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں ،لہذا اگر سائل کے لیے مذکورہ بیماریوں کے ساتھ اس طور پر مسجد تک جانا ممکن ہو کہ مسجد کی تلویث  کا اندیشہ نہ ہو اور نمازیوں کو تکلیف بھی نہ ہو ،مثلا پیپمپر باندھ لے ،یا انڈروئیر میں ٹشو وغیرہ رکھ لے ،تو سائل کے لئے مسجد جاکر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ضروری ہے۔

البتہ اگر  سائل کی مذکورہ بیماریوں کی شدت اتنی زیادہ  ہے کہ ناپاکی سے  مسجد کی تلویث کا اندیشہ ہو یا  نمازیوں کو   کسی قسم کی اذیت پہنچنے کا اندیشہ ہو تو سائل کے لیے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔

وفي صحيح البخاري:

"عن عكرمة، عن عائشة رضي الله عنها قالت:اعتكفت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم امرأة من أزواجه مستحاضة، فكانت ترى الحمرة والصفرة، فربما وضعنا الطست تحتها وهي تصلي."

 (كتاب الاعتكاف،باب الاعتكاف للمستحاضة،2/ 716 ،ط:دار ابن كثير)

وفي عمدة القاري شرح صحيح البخاري:

"ومما يستنبط منه جواز اعتكاف المستحاضة، وجواز صلاتها لأن حالها حال الطاهرات، وأنها تضع الطست لئلا يصيب ثوبها أو المسجد وأن دم الاستحاضة رقيق ليس كدم الحيض، ويلحق بالمستحاضة ما في معناها كمن به سلس البول والمذي والودي، ومن به جرح يسيل في جواز الاعتكاف...ومما يستنبط منه جواز الحدث في المسجد بشرط عدم التلويث."

 (باب الاعتكاف للمستحاضة،3/ 278،ط:دار الفكر)

2۔ حج فرض ہوچکا ہے تو اس کو ادا کریں ،احرام کا کپڑا  باندھنے سے پہلے  بغیر سلی ہوئی لنگوٹ یا بغیر سلا ہوا کوئی  کپڑا باندھ لیں اور اس کے اندر ٹشو رکھ دیں۔لنگوٹ یا بغیرسلے ہوئے کپڑے کے اندر ٹشو رکھ لیا اورپیشاب کے  قطرے اس پر لگے تو احرام کا کپڑا ناپاک نہیں ہوگا،اور اس ٹشو کو ہٹا کر وضو کرکے نماز وغیرہ پڑھ سکتے ہیں، لیکن اگر قطرے احرام کےکپڑے پر قطرے  لگ گئے تو پھر اس جگہ کو دھونا ضروری ہوگا۔

اگرسائل  کو قطروں کا مرض ایسا ہے کہ اسے کسی ایک نماز کے مکمل وقت میں اتنا وقت بھی نہ ملے کہ وہ پاک اور باوضو ہوکر وقتی فرض نماز ادا کرسکے تو سائل  شرعی معذور ہوچکاہے، اب جب تک کسی نماز کا مکمل وقت قطروں کے عذر کے بغیر نہ گزر جائے سائل شرعی معذور رہے گا، اور اس صورت میں حکم یہ ہوگا کہ سائل جب  حج یا عمرہ کرنے جائے تو  وہ ہر فرض نماز کے وقت میں ایک مرتبہ وضو کرے ، اس سے  جتنے طواف کرنا چاہے کر لے، جتنی نمازیں چاہے پڑھے۔  پھر  جب دوسری نماز کا وقت داخل ہو جائے تو نیا وضو کر لے۔ 

اور اگر مریض ایسا نہیں ہے جس کو قطرے تسلسل سے آتے ہوں،  بلکہ کچھ دیر سے آتے ہوں تو سائل  شخص طواف شروع کر دے ،  پھر جب قطرے آ جائیں تو مطاف سے باہر جا کر وضو کر لے اور واپس آ  کر وہیں سے طواف شروع کر دے جہاں سے چھوڑا تھا،  البتہ اگر وضو ٹوٹنے سے پہلے دو یا تین چکر ہوئے ہیں تو وضو کے بعد از سر نو طواف کرنا افضل ہے۔

باقی وضو صرف طواف کے لیے  ضروری ہے، طواف کے علاوہ حج و عمرہ کے دیگر افعال کے لیے وضو ضروری نہیں ہے،  اس لیے باقی افعال میں مریض و غیر مریض کا حکم ایک جیسا ہو گا، اس لیے حجِ فرض ادا کریں۔

غنیة الناسك میں ہے:

"ولو خرج من الطواف إلی تجدید وضوء ثم عاد بنی لو کان ذلك بعد إتیان أکثره، …ویستحب الاستیناف في الطواف إذا کان ذلك قبل إتیان أکثره،…وصاحب العذر الدائم إذا طاف أربعة أشواط ثم خرج الوقت توضأ وبنی ولا شیٴ علیه، وکذا إذا طاف أقل منها إلا أن الإعادة حینئذ أفضل". 

(غنیة الناسك، قبیل باب السعي بین الصفا والمروة ص ۶۸) 

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمناً يتوضأ ويصلي فيه خالياً عن الحدث (ولو حكماً)؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرةً (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة)؛ لأنه الانقطاع الكامل. ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في -{لدلوك الشمس} (ثم يصلي) به (فيه فرضاً ونفلاً) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه. وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر.(وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لا يغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي: الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى، وكذا مريض لا يبسط ثوبه إلا تنجس فورا له تركه (و) المعذور (إنما تبقى طهارته في الوقت) بشرطين (إذا) توضأ لعذره و (لم يطرأ عليه حدث آخر، أما إذا) توضأ لحدث آخر وعذره منقطع ثم سال أو توضأ لعذره ثم (طرأ) عليه حدث آخر، بأن سال أحد منخريه أو جرحيه أو قرحتيه ولو من جدري ثم سال الآخر (فلا) تبقى طهارته."

(کتاب الطھارۃ، مطلب في احكام المعذور، 305/1، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"شرط ثبوت العذر ابتداءً أن یستوعب استمراره وقت الصلاة کاملاً، وهو الأظهر، کالانقطاع لایثبت مالم یستوعب الوقت کله ... المستحاضة ومن به سلس البول … یتوضؤن لوقت کل صلاة، ویصلون بذلک الوضوء في الوقت ماشاؤا من الفرائض و النوافل … ویبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضة بالحدث السابق … إذا کان به جرح سائل وقد شد علیه خرقةً فأصابها الدم أکثر من قدر الدرهم، أو أصاب ثوبه إن کان بحال لوغسله یتنجس ثانیاً قبل الفراغ من الصلاة، جاز أن لا یغسله وصلی قبل أن یغسله وإلا فلا، هذا هو المختار."

(كتاب الطهارة، الباب السادس، 40،41/1، ط: رشيديه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408102327

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں