بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مصنوعی ٹانگ استعمال کرنےوالے کی نماز کاطریقہ


سوال

1-کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس معذور شخص کے بارے میں جس کی دونوں ٹانگیں گھٹنوں سمیت کٹی ہوئی ہوں ،اور مصنوعی ٹانگیں استعمال کررہاہو لکڑی کے سہارےمشقت کےساتھ کھڑا ہو سکتا ہو ،رکوع بھی کرسکتا ہو،لیکن سجدہ  نہیں کرسکتا  ،تو ایسے معذور شخص پر قیام فرض ہے یا نہیں ؟
2-اگر يہی معذور شخص مصنوعی ٹانگیں ہٹادے تو سجدہ کرسکتا ہے ،تو کیا اس صورت میں مصنوعی ٹانگیں ہٹانا اس کے لیے ضروری ہے ،یا وہیل چیئر پر اشارہ سے نماز ادا کرے ؟جب کہ مصنوعی ٹانگیں لگانے اور ہٹانے ميں مشقت  بھی ہے اور کشف عورت کا احتمال بھی ہے۔
3-اگركسی آدمی کی دونوں ٹانگیں گھٹنوں کے نیچے سے کٹی ہوئی ہوں اور مصنوعی ٹانگیں استعمال کررہا ہو ،مصنوعی ٹانگوں کے ساتھ رکوع و سجدہ کرسکتا ہو ،لیکن سخت مشقت کے ساتھ، آیا اس صورت میں مصنوعی ٹانگوں کے ساتھ سخت مشقت برداشت کرکے رکوع و سجدہ اداکرے یا مصنوعی ٹانگیں ہٹا کر بیٹھ کر وہیل چیئر پر نماز پڑھے ؟
4-اگر معذور کی ایک ٹا نگ مصنوعی ہو، کیا اس مصنوعی ٹانگ کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے ؟مصنوعی ٹانگ بنانے سے پہلےاس نے بیٹھ کر جونمازیں پڑھی ہیں یا مصنوعی ٹانگ کے باوجود اپنے کو قیام کا مکلف نہیں سمجھا تھا(جب کہ رکوع وسجدہ پر قادرتھا)تو ان صورتوں میں نمازوں کی قضا ضروری ہے یا نہیں ؟
5-اگر معذور کا ناف سے نچلہ حصہ فالج زدہ ہو، قیام نہیں کرسکتا تو ایسے شخص کے لیے سجدہ لازمی ہےیا سجدہ کے لیے اشارہ کافی ہے ؟اوراگر وہیل چیئر پر اشارہ سے نماز پڑھے تو جائز ہے یانہیں ؟نماز کے وقت اس معذور کو پانی دینے والا اگر کوئی نہ ہو تو یہ نماز کے لیے تیمم کرسکتا ہے یا نہیں ؟  

جواب

1- ایسامعذورجس کی دونوں ٹانگیں کٹی ہوئی ہوں اورمصنوعی ٹانگیں استعمال کررہاہو،لکڑی کےسہارےمشقت کےساتھ کھڑاہوسکتاہو،لیکن وہ سجدہ پرقادرنہ ہو ،تواس پرقیام فرض نہیں ،وہ زمین پربیٹھ کراشارہ سے نمازپڑھےاورسجدہ کےلیےرکوع سےزیادہ جھکے۔
2-اگراس معذورشخص کومصنوعی ٹانگیں لگانےاورہٹانےمیں مشقت ہواورکشفِ عورت کااحتمال بھی ہو،تواس کےلیے مصنوعی ٹانگیں ہٹانا ضروری نہیں ہے،بلکہ وہ اگرمصنوعی ٹانگوں کےساتھ زمین پربغیرمشقت کےبیٹھ سکتاہےتو زمین پربیٹھنابہترہے  ،ورنہ وہیل چیئرپربیٹھ کراشارہ سے نمازاداکرے ۔
3-جس معذورکی دونوں ٹانگیں گھٹنوں کےنیچے سے کٹی ہوئی ہو،اورمصنوعی ٹانگوں کےساتھ رکوع وسجدہ کرنے میں سخت مشقت ہو،تومصنوعی ٹانگوں کےساتھ ،وہیل چیئرپراس کے لیے نمازپڑھناجائزہے۔ 
  4-ایک ٹانگ سے معذورآدمی  کی نمازمصنوعی ٹانگ کےساتھ پڑھناجائزہے ،نیزجونمازیں معذورنےمصنوعی ٹانگ بنانے سے پہلے بیٹھ کرپڑھی ہیں وه نمازيں ہوگئی ہيں ،البتہ جونمازيں مصنوعی ٹانگ کےساتھ قیام اورسجدہ پرقدرت کےباوجود،اپنے آپ کوقیام کامکلف نا سمجھتےہوئےبیٹھ کرپڑھی ہیں ان نمازوں کی قضاضروری ہیں ۔
4-جس آدمی كا ناف سے نچلہ حصہ فالج زدہ ہو،اورقیام پرقادرنہیں ہو،جب کہ زمین پربیٹھ کرسجدہ کرنے پرقادر ہو،تواس کےلیےزمین پرپیشانی رکھ کرسجدہ کرناضروری ہے ،سجدہ کےلیے اشارہ کافی نہیں ہے ،اوراگر سجدہ کرنے پربھی قادرنہیں ہے تووہیل چیئرپراس کےلیےنمازپڑھنا جائزہے،نیزاگریہ معذورنہ توخود پانی کی طرف چل سکے اورنہ اس کو کوئی پانی دینےوالاخادم ملے(اگر چہ وہ اجرتِ مثل کے ساتھ  ہو)تو اس کے ليے تیمم کرناجائز ہے۔

فتاوی قاضیخان  میں ہے:

" وان عجز عن الركوع والسجود وقدر علي القعود يصلي قاعدا بايماء ويجعل السجود أخفض من الركوع وكذا لوعجز عن الركوع والسجود وقدر علی القيام يصلی قاعدا بايماء لأن القيام وسيلة الي السجود فاذاسقط المقصود سقطت الوسيلة."

(كتاب الصلاة ،باب صلاة المريض ،ج:1،ص:153،ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی شامی ميں ہے:

"والضابط أن من ‌ابتلي ببليتين فإن تساوياخيروإن اختلفا اختار الأخف."

(كتاب الطهارة،مطلب في سترالعورة،ج:1،ص:412،ط:سعيد)

 "(من تعذر عليه القيام) أي كله (لمرض) حقيقي وحده أن يلحقه بالقيام ضرر به يفتى(قبلها أو فيها) أي الفريضة (أو) حكمي بأن (خاف زيادته أو بطء برئه بقيامه أو دوران رأسه أو وجد لقيامه ألما شديدا) أو كان لو صلى قائما سلس بوله أو تعذر عليه الصوم كما مر (صلى قاعدا) ولو مستندا إلى وسادة."

(كتاب الصلوة،باب صلوة المريض،ج:2،ص:96،ط:سعيد)

فتاوی تاتارخانیہ  میں ہے:

"وإن عجز عن القيام وقدر علي القعود فانه يصلي المكتوبة قاعدا بركوع وسجود ولا يجزيه غير ذلك ."

(كتاب الصلاة ،الفصل:31،ج:2،ص:667،ط:رشيدية)

الاشباہ والنظائرمیں ہے:

"ما جاز لعذر بطل بزواله."

(ص:88،ط:قديمي كتب خانه)

الدرمع الرد ميں ہے :

"وإن قدر على بعض القيام) ولو متكئا على عصا أو حائط (قام) لزوما بقدر ما يقدر ولو قدر آية أو تكبيرة على المذهب لأن البعض معتبر بالكل(قوله على المذهب) في شرح الحلواني نقلا عن الهندواني: لو قدر على بعض القيام دون تمامه، أو كان يقدر على القيام لبعض القراءة دون تمامها يؤمر بأن يكبر قائما ويقرأ ما قدر عليه ثم يقعد إن عجز وهو المذهب الصحيح لا يروى خلافه عن أصحابنا؛ ولو ترك هذا خفت أن لا تجوز صلاته. وفي شرح القاضي: فإن عجز عن القيام مستويا قالوا يقوم متكئا لا يجزيه إلا ذلك، وكذا لو عجز عن القعود مستويا قالوا يقعد متكئا لا يجزيه إلا ذلك، فقال عن شرح التمرتاشي ونحوه في العناية بزيادة: وكذلك لو قدر أن يعتمد على عصا أو كان له خادم لو اتكأ عليه قدر على القيام اهـ (قوله لأن البعض معتبر بالكل) أي إن حكم البعض كحكم الكل، بمعنى أن من قدر على كل القيام يلزمه فكذا من قدر على بعضه."

(‌‌كتاب الصلاة،‌‌باب صلاة المريض،ج:2،ص:95،ط:سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أوكان لايجد من يوضيه ولايقدربنفسه فان وجدخادماأومايستأجربه أجيراً أو عنده من لو استعانه به أعانه فعلی ظاهرالمذهب انه لايتمم لأنه قادر....المسافراذاانتهی الی بئروليس معه دلوكان له ان يتمم".

(كتاب الطهارة،الباب الرابع في التيمم،ج:1:ص:28،ط:رشيدية)

الدرالمختار میں ہے:

"أولم يجدمن توضئه فان وجدبأجرمثل وله ذلك لايتمم  في ظاهر الروايةكمافي البحر".

(کتاب الطہارۃ،باب التیمم،ج:1،ص:233،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508102455

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں