بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیماری کی وجہ سے کھڑا نہ ہوسکے یا کرسی پر نہ بیٹھ سکے تو نماز کیسے ادا کی جائے؟


سوال

مجھے "سائیٹیکا" ہے اور اس کی وجہ سے درد جب بڑھ جاتا ہے تو جھکنے،کھڑےہونے یہاں تک کہ کرسی پر بیٹھنے چلنے اور بسا اوقات کھڑے رہنے پر بھی تکلیف رہتی ہے، اس صورت میں نماز کس طرح پڑھنی چاہیے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل اگر مذکورہ بیماری کی وجہ سےزمین پر  بیٹھ کر رکوع سجدے کے ساتھ  نمازادا کر سکتا ہے تو  بیٹھ کر ادا کر لے،اور  اگر بیٹھ کر رکوع سجدہ نہیں کرسکتا، لیکن بیٹھ کر رکوع و سجدہ اشارے سے کرسکتاہے تو قبلہ رخ بیٹھ کر نماز پڑھے اور رکوع و سجدہ اشارے سے کرے، سجدے کا اشارہ رکوع کے مقابلے میں زیادہ کرے،  اگر بیٹھ کر رکوع سجدہ اشارے سے بھی نہ کرسکے تو لیٹ کر اشارے سے نماز پڑھے گا، اور رکوع اور سجدے کے لیے سر کو جھکا کر اشارہ کرے گا، لیٹ کر پاؤں قبلہ کی جانب کرلے اور سر کو کسی تکیہ پر رکھ لے، یا دائیں کروٹ پر لیٹ جائے اوررخ قبلہ کی جانب کرلے۔

حدیث شریف میں ہے: 

"عن عمران بن حصین رضي اللّٰه عنه قال: کان بي الناصور، فسألت النبي صلی اللّٰه علیه وسلم فقال: صل قائماً، فإن لم تستطع فقاعداً، فإن لم تستطع فعلی جنب".

(سنن أبي داؤد، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ القاعد، 2/ 208 ط: دار الرسالة العالمية )

فتاوی شامی میں ہے:

"(من تعذر عليه القيام) أي كله (لمرض) حقيقي وحده أن يلحقه بالقيام ضررقال في البحر: أراد بالتعذر التعذر الحقيقي، بحيث لو قام سقط، حكمي بأن (خاف زيادته أو بطء برئه بقيامه أو دوران رأسه أو وجد لقيامه ألما شديدا... صلى قاعدًا".

(باب صلاة المريض، ج: 2، صفحہ: 95، ط: سعيد)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"وإن لم يكن كذلك أي بما ذكر و لكن يلحقه نوع مشقة لايجوزترك القيام."

(باب صلاة المريض، ج: 2، صفحہ: 667، ط: رشيديۃ)

مجمع الأنهر میں ہے:

"إن تعذر الإیماء برأسه أخرت الصلاة فلا سقط عنه؛ بل یقضیها إذا قدر علیها، ولوکانت أکثر من صلاة یوم ولیلة إذا کان مضیقًا وهو الصحیح، کما في الهدایة. وفي الخانیة: الأصح أنه لایقضي أکثر من یوم ولیلة کالمغمیٰ علیه، وهو ظاهر الروایة، وهذا اختیار فخر الإسلام، وشیخ الإسلام. وفي الخلاصة: وهو المختار؛ لأن مجرد العقل لایکفي لتوجه الخطاب. وفي التنویر: وعلیه الفتویٰ، ولایومئ بعینیه ولابحاجبیه ولابقلبه؛ لما روینا، وفیه خلاف زفر".

(کتاب الصلاة، باب صلاة المریض، ج: 1، صفحہ: 229، ط: دارالکتب العلمیة بیروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404101965

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں