بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

معذور بہن کو اولڈ ہاؤس (Old House) میں داخل کرنا


سوال

میری ایک بڑی بہن ہے  جو کہ  پہلے پچیس سال سے ذہنی مریض ہے  اس کی عمر اس وقت تقریبًا  بیالیس سال ہے ۔ ہم نے ان کا  روحانی علاج اور ڈاکٹری علاج بھی کر وایا ہے ،زیادہ فرق نہیں پڑھا ،بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ  معاملات خراب ہوگئے۔اب دن بھر آٹھ سے دس گھنٹے زور زور  سے چیخنا  ،گالی گلوچ کرنا،بات بات پر ضد کرتی ہے۔ہم مذکورہ بہن کو ملا کر پانچ بہن بھائی، والد محترم  اور  میرے بیوی بچے بھی ہیں  ۔والد محترم ضعیفی کی عمر میں ہیں  ان کو واشروم وغیرہ لیجانا پڑھتا ہے ۔گھر کی اس صورت حال کی وجہ سے  لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں اور ہم  نیم پاگل ہوگئے ہیں۔

            بہت سوچ بچار کے بعد(old house) اولڈ ہاؤس کا معلوم کیا ہے جہاں  مذکورہ بہن کا علاج  اور دیکھ بھال بھی ہوسکے۔میں خود شوگر کا مریض ہوں  اور میرے گھٹنے کا بھی مسئلہ ہے ۔

            بہن کی حالت یہ ہے کہ  خود نہانے دھونے کے معاملات جانتی ہے  جیسے ایام وغیرہ لیکن ذہنی صورت حال سے  بہت پریشان ہیں،  گھر پر کسی کو بلا نہیں سکتے  ،گھر کے اطراف تک ان کی آوازیں جاتی ہیں ۔

            اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟رہنمائی فر ما دیں۔ کیا  ہم بہن کو اولڈ ہاؤس بھیج سکتے ہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ  شریعتِ    مطہرہ  میں  جس طرح ایک مسلمان کی طرف حقوق اللہ متوجہ ہوتے ہیں  اسی طرح حقوق العباد بھی متوجہ ہوتے ہیں،  جن میں  سر فہرست والدین، قریبی رشتہ دار (مثلًا بہن بھائی ) کے ساتھ حسن و سلوک ، ان کی خدمت،  ہر لحاظ سے ان کا خیال رکھنا  وغیرہ سب شامل ہے خصوصًا جب کہ وہ محتاج بھی ہوں۔   قرآن و  حدیث میں  اس سے  متعلق بے شمار  فضائل وارد ہوئے  ہیں ، جب کہ اولڈ ہاؤس (Old House)کا تصور غیر اسلامی تہذیب  کا نتیجہ ہے جو سراسر اسلامی تعلیمات   و رسومات   کے خلاف ہے اور  بہت سے مفاسد پر مشتمل ہے، مثلًا  مرد و زن کا اختلاط، بے پردگی،عزت و عصمت کی پامالی،حلال و حرام کا فرق نہ کرنا وغیرہ۔

            لہٰذا  زیرِ نظر مسئلہ میں سائل  اور اس کے گھر والوں کو چاہیے کہ وہ  والد اور بہن کی خدمت کو اپنے لیے  بوجھ  نہ سمجھیں، بلکہ   اپنے لیے باعث ثواب سمجھتے ہوئے جاری رکھیں   اور آخرت میں اپنے لیے نجات کا ذریعہ سمجھیں؛   کیوں کہ  حدیث ِ  مبارک  میں آتا ہے کہ  "رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:  جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں وہ اُن سے اچھا سلوک کرے اور ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے تو اس کے لیے جنت ہے۔ "

اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے  کہ " رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:  جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اللہ اس پر رحم نہیں فرماتا۔"

سوال میں  سائل نے بہن سے  متعلق  جو  احوال ذکر کیے ہیں، ان سے بھی معلوم ہوتا ہے  کہ بہن محبت شفقت  اور خصوصی توجہ کی محتاج ہے اور مذکورہ چیزیں    گھر کے ماحول میں اَحسن طریقہ سے میسر ہوسکتی ہیں  نہ کہ اولڈ ہاؤس(Old House) میں؛ لہٰذا سائل کو چاہیے  کے بہن کو اولڈ ہاؤس (Old House) میں داخل نہ کرے،البتہ عارضی طور پر صرف علاج کی ضرورت  سے داخل کرنا ضروری ہو تو ہسپتال میں داخل کیاجاسکتا ہے۔

وفي سنن الترمذي:

"عن أبي سعيد الخدري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من كان له ثلاث بنات أو ثلاث أخوات أو ابنتان أو أختان فأحسن صحبتهنّ و اتقى الله فيهنّ فله الجنة."

(أبواب البرّ و الصلة، 4/ 320 /ط: مطبعة مصطفی الباجي الحلبي)

وفی سنن الترمذي:

"قال: حدثنا جرير بن عبد الله قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من لايرحم الناس لايرحمه الله»: هذا حديث حسن صحيح."

 (باب ما جاء في رحمة المسلمین 4/ 323 /ط: مطبعة مصطفی الباجي الحلبي)

وفی سنن الترمذي:

"عن أبي مسعود الأنصاري، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «نفقة الرجل على أهله صدقة."

(باب ما جا ء في النفقة على الأهل/4/ 344 /ط:مطبعة مصطفی الباجي الحلبي)

وفي الدر المختار و حاشية ابن عابدين :

"(و) تجب أيضًا (لكل ذي رحم محرم صغير أو أنثى) مطلقًا (ولو) كانت الأنثى (بالغةً) صحيحةً (أو) كان الذكر (بالغًا) لكن (عاجزًا) عن الكسب (بنحو زمانة) كعمى و عته و فلج، زاد في الملتقى و المختار: أو لايحسن الكسب لحرفة أو لكونه من ذوي البيوتات أو طالب علم (فقيرًا) حال من المجموع بحيث تحل له الصدقة و لو له منزل و خادم على الصواب، بدائع. (بقدر الإرث) - {وعلى الوارث مثل ذلك} [البقرة: 233]-

 (باب النفقہ/3/ 627/ط:سعید)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100092

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں