بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

معذور آدمی کا فجر کے وضو سے اشراق پڑھنے کا حکم


سوال

کسی آدمی کو پیشاب کے بعد قطرے آنے کی بیماری ہے، اور وہ آدمی انڈر ویئر پہن کر ٹشو پیپر رکھ کر وضو کر تاہے اور وقت کم ہونے کی وجہ سے فجر کی فرض نماز پڑھتا ہے۔ کیا فجر کی سنت اور اشراق کی نماز اسی وضو سے پڑھ سکتا ہے یا دوبارہ وضو کرنا پڑے گا ؟

جواب

واضح رہے کہ  شرعاً "معذور " ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جس کو وضو توڑنے کے اسباب میں سے کوئی سبب (مثلاً ریح،خون ، قطرہ وغیرہ) مسلسل پیش آتا رہتا ہو  اور ایک نماز کے مکمل وقت میں اس کو اتنا وقت بھی نہ ملتا ہو کہ وہ با وضو ہو کر وقتی فرض ادا کر سکے۔اور  شرعی معذور کا حکم یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے وقت  میں  ایک مرتبہ  وضو کرلے اور پھر اس وضو سے اس ایک وقت میں جتنی چاہے فرائض اور نوافل ادا کرے اور تلاوت قرآن کریم کرلے (خواہ اس ایک وقت کے درمیان پیشاب کے  قطرے جاری رہیں، دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی) یہاں تک کہ وقت ختم ہوجائے، جیسے ہی اس فرض نماز کا وقت ختم ہوگا تو  وضو بھی ختم ہوجائے گا اور پھر اگلی نماز کے لیے دوبارہ وضو کرنا ہوگا، البتہ گر  درمیان میں وضو کے بعد  پیشاب کے قطرے (یعنی جس بیماری کی وجہ سے معذور کے حکم میں ہوئی ہے) کے  علاوہ کوئی اور وضو ٹوٹنے والی چیز  صادر ہو تو دوبارہ وضو کرنا ضروری ہوگا  ورنہ ایک نماز کے وقت میں دوبارہ  وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

صورتِ مسئولہ میں اگر   واقعۃ کوئی  آدمی مذکورہ تعریف کے مطابق شرعی معذورہے تو ایسے   شرعی معذور کا حکم یہ ہے، کہ فجر کی نماز کے لیے وضو کرے اور فجر کے وقت ختم ہو نے تک سنت ،فرض تلاوت وغیرہ کر لے ،اگرچہ قطرے آرہے ہوں ،  اشراق   کا وقت  فجر کی نماز کا وقت نکل جانے کے بعدہے  اور فجر کا وقت نکلنے کے ساتھ ساتھ فجر کے لیے کیا گیا وضو ٹوٹ جائے گا، لہذامذکورہ آدمی کا فجر کی نماز کا وقت نکلنے کے بعد اسی وضو سے اشراق کی نماز نہیں پڑھ سکتا۔

نیز   فجر کی سنتیں اگر فجر کے وقت میں ادا نہ کر سکا  ،اب اگر اشراق کے وقت فجر کی سنتیں ادا کر رہا تو اس صورت میں بھی فجر والے وضو سے اشراق کے  وقت ٗفجر کی سنتیں ادا نہیں کر سکتا ،سنت کے لیے نیا وضو کرنا ضروری ہے ،البتہ اشراق کے وقت سنتوں کے لئے کئے گئے وضو سے اشراق پڑھ سکتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة، (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمناً يتوضأ ويصلي فيه خالياً عن الحدث (ولو حكماً)؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرةً (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة)؛ لأنه الانقطاع الكامل.(وحكمه الوضوء) لا غسل ثوبه ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في  ﴿لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ﴾ [الإسراء: 78] (ثم يصلي) به (فيه فرضاً ونفلاً) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه،وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر."". 

(کتاب الصلوۃ ،باب الحيض: مطلب في احكام المعذور، 305/1 ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"المستحاضة ومن به سلس البول أو استطلاق البطن أو انفلات الريح أو رعاف دائم أو جرح لا يرقأ يتوضئون لوقت كل صلاة ويصلون بذلك الوضوء في الوقت ما شاءوا من الفرائض والنوافل هكذا في البحر الرائق...ويبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضة بالحدث السابق. هكذا في الهداية وهو الصحيح."

(كتاب الطهارة، فصل في تطهير الأنجاس،ج:1، ص:41، ط: دار الفكر )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507101298

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں