بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

معذور آدمی کے لیے وقت سے پہلے وضو کرنے کا حکم


سوال

 سائل کو پچھلے بیس(20) سال سے پیشاب کے بعد قطرے آنے کا مسئلہ ہے، جس کےلیے سائل قضائے حاجت سے فارغ ہونے کے بعد (ایک عالم سے رجوع کرنے کے بعد ان کی ہدایت پر) پیشاب والی جگہ پر ٹشو رکھتا ہے ،اور ہر نماز کےلیے نیا وضو کرتا ہے، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی کام، جاب یا سفر کی وجہ سے وضو کی سہولت نہیں ہوتی یا وضو کا موقع اور وقت نہیں ملتا جس کی وجہ سے اس وقت کی نماز قضاہونے کا احتمال ہوتا ہے، اب اگرایک نمازپڑھے  اورپھراگلی نماز(کہ جس کےوقت میں سائل جاب یا پھرسفرمیں ہو اور اس کو یہ معلوم ہو کہ اس کو وضو کا موقع نہیں ملے گا)اس کے لیے وقت سے پہلے نیا وضو کر لے، مثال کے طور پر عصر کی نماز پڑھے، اور پھر مغرب کی نماز کےلیے پہلے سے نیا وضو کرے، جب کہ ابھی عصر کا وقت ہو اور مغرب کی نماز کا وقت نہ ہوا ہو تو  کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے؟

جواب

    اگر سائل شرعی معذور ہے یعنی اسے مسلسل پیشاب کے قطروں کا عذرپیش آتا رہتا ہے  اور ایک نماز کے مکمل وقت میں اس کو اتنا وقت بھی نہیں  ملتا  کہ وہ با وضو ہو کر وقتی فرض ادا کر سکے تو اس کے لیے عصر کا وقت نکلنے سے پہلے مغرب کے لیے وضو کرنا درست نہیں،اگر اس نے عصر کی نماز کے وقت میں وضو کیا تو مغرب کی نماز کے لیے نیا وضو کرنا ضروری ہے،اگر  سائل مندرجہ بالا تفصیل کے مطابق معذور نہیں تو اس کے لیے عصر کے وقت میں مغرب کی نماز کے لیے وضو کرنا درست ہے،البتہ اگر وضو کر لینے کے بعد پیشاب کے قطرے نکلیں گے تو مغرب کی نماز کے لیے وضو کرنا ،ٹشو پیپر کو پھیکنا اور شرم گاہ کو دھونا ضروری ہوگا۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا."(سورۃ النساء،آیت نمبر:103)

ترجمہ:یقینا نماز مسلمانوں پر فرض ہے اور وقت کے ساتھ محدود ہے۔(بیان القرآن)

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"قال سعيد بن المسيب: إن أبا قتادة بن ربعي أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: قال الله عز وجل: افترضت ‌على ‌أمتك خمس صلوات، وعهدت عندي عهدا أنه من حافظ عليهن لوقتهن أدخلته الجنة، ومن لم يحافظ عليهن فلا عهد له عندي."

(کتاب الصلاۃ،باب ما جاء فی فرض الصلوات الخمس الخ،450/1،ط:دار احیاء الکتب العربیۃ)

ترجمہ:حضرت ابو قتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے آپ کی اُمت پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں اور میں نے اپنے ہاں عہد کر رکھا ہے کہ جو شخص ان کے اوقات کے ساتھ ان نمازوں کی پابندی کرے گا اسے جنت میں داخل کروں گا اور جو ان کی پابندی نہیں کرے گا تو اس کے ساتھ میرا کوئی عہد نہیں ۔"

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمناً يتوضأ ويصلي فيه خالياً عن الحدث (ولو حكماً)؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرةً (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة)؛ لأنه الانقطاع الكامل. ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في -{لدلوك الشمس}[الإسراء: 78]- (ثم يصلي) به (فيه فرضاً ونفلاً) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه. وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر.(وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لا يغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي: الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى، وكذا مريض لا يبسط ثوبه إلا تنجس فورا له تركه (و) المعذور (إنما تبقى طهارته في الوقت) بشرطين (إذا) توضأ لعذره و (لم يطرأ عليه حدث آخر، أما إذا) توضأ لحدث آخر وعذره منقطع ثم سال أو توضأ لعذره ثم (طرأ) عليه حدث آخر، بأن سال أحد منخريه أو جرحيه أو قرحتيه ولو من جدري ثم سال الآخر (فلا) تبقى طهارته."

(کتاب الطھارۃ،مطلب في احكام المعذور،305/1،ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"شرط ثبوت العذر ابتداءً أن یستوعب استمراره وقت الصلاة کاملاً، وهو الأظهر، کالانقطاع لایثبت مالم یستوعب الوقت کله ... المستحاضة ومن به سلس البول … یتوضؤن لوقت کل صلاة، ویصلون بذلک الوضوء في الوقت ماشاؤا من الفرائض و النوافل … ویبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضة بالحدث السابق … إذا کان به جرح سائل وقد شد علیه خرقةً فأصابها الدم أکثر من قدر الدرهم، أو أصاب ثوبه إن کان بحال لوغسله یتنجس ثانیاً قبل الفراغ من الصلاة، جاز أن لا یغسله وصلی قبل أن یغسله وإلا فلا، هذا هو المختار."

(كتاب الطهارة،الباب السادس،40،41/1،ط:رشيديه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404101613

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں