زید ایک مدرسہ میں تدریسی خدمات انجام دے رہا تھا لاک ڈاؤن (رجب المرجب) میں حکومت کی طرف سے مدارس وغیرہ کو بند کرنے کے اعلان کے بعد مدرسہ ہذا کی انتظامیہ نے بھی دیگر مدارس کی طرح تعطیل کا اعلان کر دیا تعطیل کی بناء پر زید اپنے گھر آجاتا ہے عید الفطر کے بعد مدرسہ کے ذمہ دار زید کو فون کر کے اطلاع کرتے ہیں کہ آپ اپنا انتظام کرلیں تنخواہ کے بارے میں معلوم کرنے پر جواب دیا جاتا ہے کہ لاک ڈاؤن تک کی تنخواہ آپکو دیجائے گی گفتگو کے دوران کچھ وقفہ کے بعد کہا جاتا ہے کہ شوال اور ذی قعدہ کی تنخواہ دی جائیگی اب زید کا انتظام شوال کے مہینہ میں ہی ہوجاتا ہے تو کیا اب زید کے لیے شوال کے ما بقیہ ایام (مدرسہ سے بر طرف کرنے کے بعد کے ایام) اور ذی قعدہ کی تنخواہ لینا شریعت کی رو سے کیسا ہے ؟؟ نیز اگر ان دو ماہ (شوال المکرم اور ذی قعدہ) کے دوران انتظامیہ زید کو مدرسہ میں حاضری دینے کو کہے( حالانکہ جس وقت زید کو مدرسہ سے معزولی کی اطلاع دی گئی تھی اس وقت نہ تو صراحتاً اور نہ ہی اشارتاً حاضری دینے کو کہا گیا تھا ) تو زیدکو مدرسہ جانا ہوگا یا نہیں؟؟ نیز اگر زید مدرسہ نہیں جاتا ہے تو کیا اس صورت میں زید تنخواہ کا مستحق ہوگا یا نہیں ؟؟
واضح رہے کہ مدارس دینیہ میں اساتذہ کا تقرر مسانھۃ ( سالانہ بنیاد پر ) ہوتا ہے اور مدارس میں تدریسی خدمات کا آغاز شوال سے ہوتا ہے، صورت مسئولہ میں سائل کے بیان کے مطابق عید الفطر کے بعد مدرسہ کے ذمہ داران کی طرف سے جب یہ کہا گیا کہ " آپ اپنا انتظام کرلیں "؛ تو اس کہنے کے ساتھ ہی زید کا ادارہ کے ساتھ عقد اجارہ ختم ہوگیا تھا ، لہذا زید لاک ڈاون کی تعطیلات اور عید الفطر سے پہلے تک کے ایام یعنی رمضان البارک تک کی تنخواہ کا تو حقدار ہے ، اس کے بعد کے ایام یعنی شوال اور ذوالقعدہ کے ایام کی تنخواہ کا حقدار نہیں، ہاں اگر ادارہ کسی مخصوص فنڈ سے جسمیں چندہ دینے والوں کی طرف سے معزول شدہ اساتذہ کو ماہ شوال اور ذوالقعدہ کے ایام کی بھی تنخواہ دینے کی اجازت ہو تو ادارے کا ان دو ماہ کی تنخواہ کا دینا اور زید کیلئے لینا درست اور جائز ہوگا۔ عمومی چندہ کی رقم سے لینا دینا جائز نہیں ہوگا۔
الاشباہ والنظائرمیں ہے:
" ومنها البطالة في المدارس کأیام الأعیاد ویوم عاشوراء وشهر رمضان في درس الفقه لم أرها صریحة في کلامهم. والمسألة علٰی وجهین: فإن کانت مشروطةً لم یسقط من المعلوم شیئ وإلا فینبغي أن یلحق ببطالة القاضي وقد اختلفوا في أخذ القاضي مارتب له من بیت المال في یوم بطالته ، فقال في المحیط: إنه یأخذ یوم البطالة لأنه یستریح للیوم الثاني، وقیل: لایأخذ، انتهى. وفي المنیة: القاضي یستحق الکفایة من بیت المال في یوم البطالة في الأصح، واختاره في منظومة ابن وهبان وقال: إنه الأظهر، فینبغي أن یکون کذلک في المدارس؛ لأن یوم البطالة للاستراحة، وفي الحقیقة یکون للمطالعة والتحریر عند ذی المهمة".
(الأشباه والنظائر، الفن الأول، القاعدة السادسة: العادة محکمة، ص:۹۶،ط:قدیمی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144111201475
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن