بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مزنیہ کی بیٹی سے شادی کرنے کے لیے شافعی مسلک اختیار کرنا


سوال

ایک حنفی شخص نے مزنیہ کی بیٹی سے شادی کر لی ہے،  اب وہ کہتا ہے کہ یہ امام شافعی صاحب کے نزدیک جائز ہے؛ میں نے اس لیے کیا ہے، اب وہ کہتا ہے اس صورت میں اب میں مکمل شافعی المسلک بن جاؤں یا حنفی مسلک پر قائم رہوں؟

جواب

 حرمتِ مصاہرت  جس طرح نکاح سے ثابت ہوجاتی ہے اسی طرح زنا سے بھی ثابت ہوجاتی ہے، لہذا جس عورت کے ساتھ کوئی مرد زنا کرلے اس مرد کے لیے مزنیہ کی بیٹی سے نکاح کرنا جائز نہیں، اگر شادی کرلی تو بھی شرعاً یہ نکاح منعقد نہیں ہوا، فوری علیحدگی اختیار کرنا ضروری ہو گا،  ورنہ سخت گناہ ہو گا۔

ؔابو ہانی رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:  "جو شخص کسی عورت کی شرم گاہ کو دیکھے اس پر اس عورت کی ماں اور بیٹی حرام ہوجائیں گی"۔

"عن حجاج، عن أبي هانئ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من نظر إلى فرج امرأة، لم تحل له أمها، ولا ابنتها»".

(مصنف ابن أبي شيبة (3/ 480) کتاب النکاح،  باب الرجل يقع على أم امرأته أو ابنة امرأته ما حال امرأته، برقم: 16235، ط: مکتبة الرشد، ریاض)

ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ میں زمانہ جاہلیت میں ایک عورت سے زنا کرچکا ہوں،  کیا میں اب اس کی لڑکی سے نکاح کرسکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ:  میں اس کو جائز نہیں سمجھتا اور یہ بھی جائز نہیں  ہے کہ تو ایسی عورت سے نکاح کرے جس کی بیٹی کے جسم کے ان حصوں کو تو  دیکھ چکا ہے جو حصے تو بیوی کے دیکھے گا۔

"عن أبي بكر بن عبد الرحمن بن أم الحكم، أنه قال: قال رجل: يا رسول الله، إني زنيت بامرأة في الجاهلية وابنتها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لاأرى ذلك، ولايصلح ذلك: أن تنكح امرأة تطلع من ابنتها على ما اطلعت عليه منها".

(مصنف عبد الرزاق الصنعاني (7/ 201)  کتاب الطلاق، باب الرجل يزني بأخت امرأته، برقم: 12784، ط: المجلس العلمی، هند)

ایک شخص نے اپنی ساس  سے زنا کیا تو اس کے بارے میں  عمران بن حصین  رضی اللہ عنہ  نے یہ فرمایا کہ: "اس کی بیوی اس پر حرام  ہوگئی ہے"۔

"عن قتادة، عن عمران بن حصين في «الذي يزني بأم امرأته، قد حرمتا عليه جميعًا»".

(مصنف عبد الرزاق الصنعاني (7/ 200)  کتاب الطلاق، باب الرجل يزني بأم امرأته، وابنتها، وأختها ، برقم: 12776، ط:المجلس العلمی، هند)

   عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ:  جو شخص کسی عورت کی شرم گاہ دیکھے اور اسی کی بیٹی کی بھی شرم گاہ دیکھے تو اللہ تعالی اس کی طرف (ناراضی کی وجہ) سے نہیں دیکھیں گے۔

"عن علقمة، عن عبد الله، قال: «لاينظر الله إلى رجل نظر إلى فرج امرأة وابنتها»".

(مصنف ابن أبي شيبة (3/ 480) کتاب النکاح،  باب الرجل يقع على أم امرأته أو ابنة امرأته ما حال امرأته، برقم:16234، ط: مکتبة الرشد، ریاض)

نيز صرف خواہشِ نفسانی کی وجہ سے یا بلا ضرورت ایک امام کی تقلید چھوڑکر دوسرے امام کی تقلید درست نہیں ہے، حضرت مولانا مفتی عبدالرحیم  لاجپوری رحمہ اللہ  اسی طرح کے ایک مسئلہ کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

”(سوال  ۲۴۷): ایک شخص نے اپنی ساس سے زنا کرلیا، اس شخص کو اپنے فعل پر ازحد ندامت ہے، لیکن حرمتِ مصاہرت کا مسئلہ ا س کے لیے باعثِ تشویش بنا ہوا ہے کہ اب وہ کیا کرے، ازروئے شرع اس کی بیوی اس پرحرام ہوچکی، اگر وہ اس صورت میں  اپنے فعل کو بیوی سے چھپائے ہوئے طلاق دے کر جدا کرتا ہے تو طلاق دینے کی وجہ سے سسرال والوں  کی طرف سے جان کا خطرہ ہے، سسرال والے دولت و قوت میں  فائق ہونے کے ساتھ ساتھ غنڈے بھی ہیں، اس علاقہ کے تمام لوگ یہ بات جانتے ہیں  اور ان لوگوں  سے خائف رہتے ہیں، نیز اگر وہ شخص اپنے اس برے فعل کا اظہار کرتا ہے تو اس صورت میں  بھی جان کا خطرہ ہے تو مذکورہ صورت میں  "اختلاف امتی رحمۃ" کے پیشِ نظر امام شافعی ؒ کے مسلک پر (کہ زنا سے حرمتِ مصاحرت ثابت نہیں  ہوتی) عمل کرے تو جائز ہوگایا نہیں؟ بینواتوجروا۔

(الجواب): "فتح القدیر" میں  ایک حدیث ہے:

"قال رجل: یارسول اللہ! إني زینت بامرأۃ في الجاھلیة، أ فأنکح ابنتھا؟ قال: لا أری ذلك، ولایصلح أن تنکح امرأ ۃً تطلع من ابنتھا علی ماتطلع علیه منھا ... الخ

(فتح القدیر ج۳ ص ۲۲۱ فصل في بیان المحرمات تحت قوله: لأنھا نعمة)

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی عورت سے زنا کرے تو اس کی بیٹی اس پرحرام ہے، "ہدایہ" اولین میں ہے:

"ومن زنی با مرأۃ حرمت علیہ امھا وبنتھا".

(أیضاً هدایه اولین ص ۲۸۹)

"فتاویٰ تاتارخانیہ" میں  ہے:

"حرمة الصهر تثبت بالعقد الجائز وبالوطئ حلالًا کان أو حراماً أو عن شبھة أو زنًا."

(الفتاویٰ التاتارخانیة ج۲ ص۶۱۸ الفصل السابع في أسباب التحریم)

صورتِ مسئولہ میں  ساس سے زنا کیا ہے تو حرمتِ مصاہرت ثابت ہوگئی اور بیوی اس پر حرام ہوگئی، اب شوہر بیوی کو طلاق دے کر علیٰحدہ کر دے، مذکورہ صورت میں  امام ابو حنیفہ ؒ کا مسلک چھوڑ کر امام شافعی ؒ کا مسلک اختیار کرنے کی اجازت نہیں  دی جاسکتی، جہاں  مسلمانوں  کی کوئی شدید اجتماعی ضرورت داعی ہو (بالفاظِ دیگر عمومِ بلویٰ ہو) تو ایسے موقع پر کسی خاص مسئلہ میں  کسی دوسرے امام کے قول پر عمل کرنے کی گنجائش ہوسکتی ہے بشرط یہ کہ متبحر علماء اس کا فیصلہ کریں، انفرادی رائے کا کوئی اعتبار نہیں، انفرادی ضرورت کی وجہ سے مذہبِ غیر کو اختیار کرنے کی اجازت نہیں  دی جاسکتی اور خاص کر عورت کی خاطر مذہبِ حق کو چھوڑنا  بڑا خطرناک ہے اور اس سے سوءِ خاتمہ کا اندیشہ ہے، شامی میں  ہے: ایک حنفی المسلک نے اہلِ حدیث (غیر مقلد) کی لڑکی سے نکاح کا پیغام بھیجا، اس نے کہا: اگر تو اپنا مذہب چھوڑ دے، یعنی امام کے پیچھے قراءت اور رفع یدین کرے تو پیغام منظور رہے، اس حنفی المسلک نے شرط قبول کرلی اور نکاح ہوگیا، شیخِ وقت امام ابو بکر جو زجانی رحمہ اللہ نے یہ سنا تو افسوس کیا اور فرمایا:

"النکاح جائز و لکن أخاف علیه أن یذهب إیمانه وقت النزع؛ لأنه استخفّ بالمذهب الذي هو حقّ عندہ وترکه لأجل جیفة منتة".

یعنی نکاح تو جائز ہے، لیکن مجھے اس شخص کے سوءِ خاتمہ کا اندیشہ ہے کہ اس نے ایک عورت کی خاطر اس مذہب کی توہین کی جسے وہ آج تک حق سمجھتا تھا۔ محض عورت کی خاطر اسے چھوڑ دیا۔

(شامی ص۲۶۳ج۳، باب التعزیر مطلب فیما إذا ارتحل إلی مذهب غیرہ)

مذکورہ صورت میں  "اختلاف أمتي رحمة" سے استدلال صحیح نہیں، جان کا خطرہ ہو تو وہ جگہ چھوڑ دے، لوگ معمولی باتوں  کی وجہ سے اپنا وطن چھوڑ دیتے ہیں۔ فقط واللہ اعلم بالصواب۔“

(فتاوی رحیمیہ(8/211) محرمات کا بیان، ط:دارالاشاعت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144203200654

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں