بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مزنیہ کی مرضعہ سے نکاح کا حکم


سوال

 اگر کوئی شخص کسی عورت سے زنا کرے اور اس عورت کےبچی پیدا ہوجائے، زنا سے جو دودھ آگئی وہ دوسری بچی کو بھی پلائے تو کیا اب یہ شخص(زانی) اُس بچی( رضیعہ) جو بڑی ہوگئی ہے کے ساتھ نکاح کرسکتاہے؟ مذکورہ مسئلہ میں قاضی خان اور شامی کی عبارات درج ذیل ہیں اور دونوں میں اختلاف ہیں، فتاوی قاضی خان کی عبارت یہ ہے" رجل زنى بامرأة فولدت منه وأرضعت بهذا اللبن صغيرة لا يجوز لهذا الزاني ولا لأحد من آبائه وأولاده نكاح هذه الصبية۔۔ "جبکہ فتاوی شامی کی عبارت یہ ہے"وهو أوجه لأن الحرمة من الزنا للبعضية وذلك في المولود نفسه لأنه مخلوق من مائه دون اللبن، إذ ليس اللبن كائنا من منيه لأنه فرع التغذي. وهو لا يقع إلا بما يدخل من أعلى المعدة لا من أسفل البدن كالحقنة فلا إنبات فلا حرمة، بخلاف ثابت النسب لأن النص أثبت الحرمة منه؛ وإذا ترجح عدم حرمة الرضيعة بلبن الزاني على الزاني فعدمها على من ليس اللبن منه أولى، خلافا لما في الخلاصة ولأنه يخالف المسطور في الكتب المشهورة إذ يقتضي تحريم بنت المرضعة بلبن غير الزوج على الزوج بطريق أولى. اهـ. كلام الفتح ملخصا. وحاصله أن في حرمة الرضيعة بلبن الزنا على الزاني وكذا على أصوله وفروعه روايتين كما صرح به القهستاني أيضا۔۔۔ " اب ان دونوں فقہاے کرام میں سے کس کی بات درست ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ اگر چہ یہ مسئلہ مختلف فیہ  ہے،لیکن محقیقین عدمِ حرمت کے قائل ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وحاصله أن في حرمة الرضيعة بلبن الزنا على الزاني وكذا على أصوله وفروعه روايتين كما صرح به القهستاني أيضا،وأن الأوجه رواية ‌عدم ‌الحرمة."

(‌‌كتاب النكاح‌‌، باب الرضاع، ج:3، ص:222، ط: سعید)

فتاوی فریدیہ میں ہے:

"جواب:یہ مختلف فیہ مسئلہ ہے،اور محقیقین عدمِ حرمت کے قائل ہیں۔"

(باب الرضاعۃ،ج:5، ص:151، ط: دارالعلوم صدیقیہ زروبی ضلع صوابی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100385

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں