بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مزنیہ عورت کو دخول سے قبل طلاق دینے کا حکم


سوال

ایک لڑکا زید(بالفرض)  نے ایک لڑکی خالدہ (بالفرض) سے زنا کیا ،لیکن دخول شلوار کے اوپر سے ہوا، کچھ مہینے بعد زید نے خالدہ سے بذریعہ وکیل شادی کی،مگر ابھی تک نہ ملاقات ہوئی اور نہ دخول ہوا ۔ ایسی صورت میں زید  نے خالدہ کو فون پر بالکل واضح اور صریح الفاظ سے کہا:  ٹھیک ہے تجھے طلاق(ایک مرتبہ) ،  اب سوال یہ ہے کہ خالدہ کو طلاق بائن واقع ہوئی (کیوں کہ خالدہ غیر مدخول بہا )یا طلاق رجعی ؟ اگر زید اسی لڑکی سے دوبارہ شادی کرے تو کتنی طلاق کا مالک ہوگا ؟ نیز کپڑے کے اوپرسے دخول زنا میں شمار ہوگا یانہیں ؟

جواب

صورت مسئولہ میں خالد ہ چوں کہ غیر مدخول بہا ہے تو زید کے یہ کہنے سے کہ"ٹھیک ہے تجھے طلاق" ایک طلاق بائن واقع ہوگئی ،دونوں کا نکاح ختم ہوچکاہے ، اور  خالدہ  پر عدت گزارنا بھی لازم نہیں ہے، اس صورت میں اگر زید  خالدہ  سے باہمی رضامندی سےدوبارہ  نکاح کرنا چاہتے ہیں تو   از سر نو  نئے مہر اور گواہوں کی موجودگی میں تجدیدِ  نکاح کرسکتے ہیں، اور آئندہ کے لیے زید  کو دو طلاقوں کا  اختیار باقی ہوگا۔باقی اگر کپڑے کے اوپر سےدخول اس طرح  ہوا ہے کہ عضو تناسل کا حشفہ   عورت کی شرم گاہ میں داخل ہوگیا ہو تو یہ زنا کے حکم میں ہوگا ورنہ زنا کے حکم میں نہیں ہوگا،لیکن اجنبیہ کے ساتھ مذکورہ حرکات کے ناجائز اور حرام ہونے میں کوئی تردد نہیں، اس لیے صدق دل سے توبہ کرنی چاہیے۔

در مختار میں ہے :

"(وإن فرق) بوصف أو خبر أو جمل بعطف أو غيره (بانت بالأولى) لا إلى عدة (و) لذا (لم تقع الثانية)."

(فتاوی شامی ،کتاب الطلاق،باب طلاق غیر المدخول بہا،ج:3،ص:286،سعید)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے :

"وإذا طلقت المرأة قبل الدخول والخلوة، فلا عدة عليها، لقوله تعالى: إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا ۖ  ويكون الطلاق بائنا."

(الفصل الاول :الطلاق،المبحث الثانی :شروط الطلاق،ج:9،ص:6888،دارالفکر)

الجوہرۃ النیرۃ میں ہے :

"وصفة الزنا هو الوطء في فرج المرأة العاري عن نكاح أو ملك أو شبهتهما ويتجاوز الختان الختان هذا هو الزنا الموجب للحد وما سواه ليس بزنا وإنما شرط مجاوزة الختان لأن ما دونه ملامسة لا يتعلق به أحكام الوطء من الغسل وفساد الحج وكفارة رمضان."

(کتاب الحدود،ج:2،ص:147،المطبعۃ الخیریۃ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508102514

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں