میرا ایک لڑکی سے غلط تعلق بن گیا ہے ،ایک دفعہ ہم نے آپس میں کرلیا۔ کیا ہم توبہ کرکے نکاح کر سکتے ہیں؟ پلیز جواب جلدی دیں ہم بہت پریشان ہیں۔
صورت مسئولہ میں سائل اپنے اس فعل پر خوب توبہ و استغفار کرےاور آئندہ زندگی پاک دامنی کے ساتھ گزارنے کا عزم کرے۔ نیز مذکورہ لڑکی اگر غیر شادی شدہ ہے تو سائل اس کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب قبول کر کے نکاح کرسکتاہے۔
البحر الرائق میں ہے:
"ولنا: أن الوطء سبب الجزئية بواسطة الولد حتى يضاف إلى كل واحد منهما كملا فيصير أصولها وفروعها كأصوله وفروعه، وكذلك على العكس والاستمتاع بالجزء حرام إلا في موضع الضرورة وهي الموطوءة والوطء محرم من حيث إنه سبب الولد لا من حيث إنه زنا واللمس والنظر سبب داع إلى الوطء فيقام مقامه في موضع الاحتياط كذا في الهداية."
(کتاب النکاح ، فصل فی المحرمات ج نمبر ۳ ص نمبر ۱۱۰،دار الکتاب الاسلامی)
البحر الرائق میں ہے:
"(قوله وحل تزوج الكتابية)...... (قوله أو زنا) أي وحل تزوج الموطوءة بالزنا أي الزانية، لو رأى امرأة تزني فتزوجها، جاز وللزوج أن يطأها بغير استبراء وقال محمد لا أحب له أن يطأها من غير استبراء، وهذا صريح في جواز تزوج الزانية، وأما قوله تعالى {والزانية لا ينكحها إلا زان أو مشرك وحرم ذلك على المؤمنين} [النور: 3] فمنسوخ بقوله تعالى {فانكحوا ما طاب لكم} [النساء: 3] على ما قيل بدليل الحديث أن «رجلا أتى النبي - صلى الله عليه وسلم - فقال يا رسول الله: إن امرأتي لا تدفع يد لامس.......الخ."
(کتاب النکاح ، فصل فی المحرمات ج نمبر ۳ ص نمبر ۱۱۰،دار الکتاب الاسلامی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144311100898
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن