بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مظلوم لوگوں کے لیے روزے رکھنا


سوال

 فلسطین میں یہودیوں نے جو آتش بازی کر  رکھی ہے جیسا کہ پوری دنیا کو معلوم ہے،کیا ان لوگوں کے حق کے لیے روزہ رکھنا چاہیے؟ کوئی بھی دن رکھ سکتے ہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں فلسطینی مسلمانوں  کے لیے روزہ رکھنا جائز ہے ، روزہ رکھ کر فلسطینی مسلمانوں کے لیے دعا کی جائے، اب اگر کوئی روزہ رکھنا چاہے تو اپنی سہولت سے کسی بھی دن روزہ رکھ لے،اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ سے دعائیں بھی کر یں ،البتہ  اس روزہ کو اپنے  یا دوسروں پرلازم نہ سمجھا جائے ،اور نہ ہی کسی مخصوص دن کا التزام کیا جائے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (‌من ‌أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رد)."

(كتاب الصلح، باب: إذا اصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود، ج: 2، ص: 959، رقم: 2550، ط: دار اليمامة )

 البحر لابن النجيممیں ہے:

"ولأن ذكر الله تعالى إذا قصد به التخصيص بوقت دون وقت أو بشيء دون شيء لم يكن ‌مشروعا حيث لم يرد الشرع به؛ لأنه خلاف المشروع."

(كتاب الصلوة ،باب العيدين ،باب مايفعله عيد الفطر،ج:2،ص:172 ،ط:دارالكتب العلمية)

 العقود الدرية  في الفتاوي الحامدية میں ہے:

"‌كل ‌مباح يؤدي إلى زعم الجهال سنية أمر أو وجوبه فهو مكروه."

(‌‌فائدة الاعتماد على ما وقع في كتبنا من العبارات الفارسية،ج:2،ص:333 ،ط:دارالمعرفة)

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن الجهلة يعتقدونها سنة أو واجبة وكل مباح يؤدي إليه ‌فمكروه."

(كتاب الصلوة ،باب صلوة المسافر ،ج:2،ص:120 ،ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌إذا ‌تردد ‌الحكم بين سنة وبدعة كان ترك السنة راجحا على فعل البدعة."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج: 1، ص: 642، ط: سعید)

الاعتصام للشاطبی میں ہے:

"وأما غير العالم وهو الواضع لها، لأنه لا يمكن أن يعتقدها بدعة، بل هي عنده مما يلحق المشروعات، كقول من جعل يوم الإثنين يصام لأنه يوم مولد النبي صلى الله عليه وسلم، وجعل الثاني عشر من ربيع الأول ملحقا بأيام الأعياد لأنه عليه السلام ولد فيه."

(الباب السادس في‌‌ أحكام البدع، فصل هل في البدع صغائروكبائر، ج: 2، ص: 548، ط: دار ابن عفان، السعودية)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144504100863

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں