ايک غير ملکى ايپلي کيشن ہے جو فيس بک کى طرح ہے، اس پر عوام مواد شائع کرتےہیں اور ايپلي کيشن والوں کو بندوں کى ضرورت ہے جو اس مواد کى جانچ پڑ تال کر يں، اس ميں ہر طرح کى چيزيں شامل ہوتى ہیں اب اس لحاظ سے تو ٹھیک معلوم ہوتا ہے کہ فحش مواد شائع ہونے سے روکا جا رہا ہےليکن یہ بات بھی ہے کہ ان کى نظرميں غير محرم مثلًا عورت کى تصوير شائع کرنا غلط نہیں ہےاور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ بد نظرى بھی ہوتى ہےـ دور حاضر ميں صاف ستھرا کام ملنا بہت مشکل ہوگيا ہے، کہیں جھوٹ بلوايا جاتا ہے تو کہیں بد نظرى ہوتى ہےتو کہیں کچھ اورمسئلہ ہوتا ہےسرکارى نوکرى تو تقر يبًا نا ممکن ہی سمجھ ليں ـ تو مذکوره بالا کام کے جائز يا نا جائز ہونے کى وضا حت کردیں !
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ ایپ میں نامحرم کی تصاویر شائع کی جاتی ہیں اور نامحرم عورت کی تصویر پر نظر پڑتی ہے ایک تو اس میں جاندار کی تصویر ہے جاندار کی تصویر خواہ مرد کی تصویر پر مشتمل ہو یا عورت کی تصویر پر مشتمل ہو یا کسی بھی جاندار کی تصویر پر مشتمل ہو مطلقا ناجائز ہے نیز اس میں دوسری قباحت نامحرم کو دیکھنا ہے جو کہ ناجائز ہے لہذا آپ کے لیے مذکورہ بالاکام کرناجائز نہیں ہے اور اس کی کمائی بھی حلال نہیں ہوگی۔کوئی دوسرا حلال ذریعہ معاش اختیار کریں۔
بلوغ القصدوالمرام میں ہے:
"يحرم تصوير حيوان عاقل أو غيره إذا كان كامل الأعضاء، إذا كان يدوم، وكذا إن لم يدم على الراجح كتصويره من نحو قشر بطيخ. ويحرم النظر إليه؛ إذا النظر إلى المحرم لَحرام."
فتاوی شامی میں ہے:
"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها."
(کتاب الصلوۃ ، باب مایفسد الصلوۃ و مایکرہ فیها جلد ۱ ص: ۶۴۷ ط: دارالفکر)
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144404100513
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن