بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماضی میں بچوں کو دی گئی سزا پر معافی کا حکم


سوال

میں نے ماضی میں بچوں کو سکول میں سخت سزائیں دی تھی، اب دل گھبراتا ہے توبہ بھی کی ہے، کیا اللہ معاف کر دے گا؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں سائل نے اگر  بچوں کو شریعت کی طرف سے مقرر کردہ شرائط کی رعایت کرتے ہوئے  مارا ہو تو پھر شرعا ً سائل پر اس کا گناہ نہیں ہوگا ،شرائط درج ذیل ہیں :

1۔۔نابالغ    بچوں کے والدین سے اس کی اجازت لی ہو۔

2۔۔  سزا سے مقصود تنبیہ و تربیت ہو، غصہ یا انتقام کے جذبہ کی تسکین نہ ہو۔

3۔۔ ایسی سزا دی ہو جو شرعاً ممنوع نہ ہو۔

4۔۔ غصہ کی حالت میں نہ مارا ہو ۔

5۔۔ ایک وقت میں تین سے زیادہ ضربات   نہ مارے ہوں ۔

6۔۔بچہ تادیب کے قابل ہو۔

البتہ اگر حدود کی رعایت رکھے بغیر ان کو سزا دی ہو تو  یہ ظلم اور زیادتی تھی، اس صرت میں  اگر ان سے معافی تلافی کی کوئی صورت ممکن ہو تو سائل کو ان سے  معافی مانگنی چاہیے اور اگر کوئی صورت معافی کی  ممکن نہ ہو  تو اللہ کے حضور   توبہ واستغفار کریں، امید ہے کہ  اللہ تعالیٰ  معاف کردیں گے ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"لا يجوز ضرب ولد الحر بأمر أبيه، أما المعلم فله ضربه لأن المأمور يضربه نيابة عن الأب لمصلحته، والمعلم يضربه بحكم الملك بتمليك أبيه لمصلحة التعليم، وقيده الطرسوسي بأن يكون بغير آلة جارحة، وبأن لا يزيد على ثلاث ضربات ورده الناظم بأنه لا وجه له، ويحتاج إلى نقل وأقره الشارح قال الشرنبلالي: والنقل في كتاب الصلاة يضرب الصغير باليد لا بالخشبة، ولا يزيد على ثلاث ضربات ونقل الشارح عن الناظم أنه قال: ينبغي أن يستثنى من الأحرار القاضي، فإنه لو أمره بضرب ابنه جاز له أن يضربه بل لا يجوز له أن لا يقبل ."

(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج:۶،ص:۴۳۰،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100471

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں