بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ماضی میں بچوں کو دی گئی سزا پر معافی کا حکم


سوال

کسی استاد کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا ہے کہ انہوں نے آج سے دس، گیارہ سال پہلے بالغ اور کچھ نابالغ بچوں کو کبھی تو کسی غلطی کی وجہ سے اور کبھی یوں ہی بہت  مارا  ہے، حضرت کو یہ بات اب سمجھ میں آئی ہے کہ مجھ سے غلطی ہوگئی ، اب اگر بچوں کو بلا کر یا پھر بچوں کے گھر گھر جا کر معافی مانگے تو یہ بہت ہی دشوار اور مشکل کام ہے، توکیا بچوں کی طرف سے صدقہ دینے سے معافی تلافی ہوسکتی ہے؟ یا پھر معافی تلافی کی شریعت کی رو میں جو بھی شکل ہو بتا کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں اور عند اللہ مأجور ہوں۔

جواب

صورت ِ مسئولہ میں سائل نے اگر  بچوں کو شریعت کی طرف سے مقرر کردہ شرائط کی رعایت کرتے ہوئے  مارا ہو تو پھر شرعا ً سائل پر اس کا گناہ نہیں ہوگا ،شرائط درج ذیل ہیں :

1۔۔نابالغ    بچوں کے والدین سے اس کی اجازت لی ہو۔

2۔۔  سزا سے مقصود تنبیہ و تربیت ہو، غصہ یا انتقام کے جذبہ کی تسکین نہ ہو۔

3۔۔ ایسی سزا دی ہو جو شرعاً ممنوع نہ ہو۔

4۔۔ غصہ کی حالت میں نہ مارا ہو ۔

5۔۔ ایک وقت میں تین سے زیادہ ضربات   نہ مارے ہوں ۔

6۔۔بچہ تادیب کے قابل ہو۔

البتہ اگر حدود کی رعایت رکھے بغیر ان کو سزا دی ہو تو  یہ ظلم اور زیادتی تھی، اس صورت میں  اگر ان سے معافی تلافی کی کوئی صورت ممکن ہو تو سائل کو ان سے  معافی مانگنی چاہیے اور اگر کوئی صورت معافی کی  ممکن نہ ہو  تو اللہ کے حضور   توبہ واستغفار کریں، اور ان طلباء  کے لیے دعائیں کرتے رہیں ،امید ہے کہ  اللہ تعالیٰ  معاف کردیں گے ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"لا يجوز ضرب ولد الحر بأمر أبيه، أما المعلم فله ضربه لأن المأمور يضربه نيابة عن الأب لمصلحته، والمعلم يضربه بحكم الملك بتمليك أبيه لمصلحة التعليم، وقيده الطرسوسي بأن يكون بغير آلة جارحة، وبأن لا يزيد على ثلاث ضربات ورده الناظم بأنه لا وجه له، ويحتاج إلى نقل وأقره الشارح قال الشرنبلالي: والنقل في كتاب الصلاة يضرب الصغير باليد لا بالخشبة، ولا يزيد على ثلاث ضربات ونقل الشارح عن الناظم أنه قال: ينبغي أن يستثنى من الأحرار القاضي، فإنه لو أمره بضرب ابنه جاز له أن يضربه بل لا يجوز له أن لا يقبل ."

(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج:۶،ص:۴۳۰،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101215

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں