بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماضی کے کسی کام کے کرنے پر طلاق کو معلق کرنا، بیٹی کو شہوت سے چھو لیا اس کا حکم


سوال

۱۔میرا شوہر 40سال سے محض شک کی بنیاد پر  بار ہا یہ کہہ چکا ہے کہ اگر تم نے زنا کروایا ہے تو تجھے تین طلاق ہیں ، جبکہ مجھ سے ایسا قبیح گناہ قطعاً نہیں ہوا ۔

۲۔ہماری ایک بیٹی بھی ہے ،آج سے ستائیس سال قبل میرا شوہر اپنی اس حقیقی بیٹی سےجبکہ اس کی عمر اس وقت چودہ برس تھی  سوائے صحبت کے وہ تمام کام شہوت کے ساتھ  کرتا رہا جو ایک بیوی سے کیا جاتا ہے ، اور مجھے اس بارے میں اور اس بات کے بارے میں کہ اس سے حرمتِ مصاہرہ ثابت ہوجاتی ہے معلومات نہیں تھی ،ایک دن بیٹی کے بتانے پر شوہر کی اس حرکت کا پتہ چلا اور حرمتِ مصاہرہ کا مجھے ابھی قریب کے زمانے میں علم ہو اکہ اس طرح کرنے سے بیوی شوہر پر حرام ہوجاتی ہے جبکہ میں نے شوہر سے بھی  اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ واقعی مجھ سے غلطی ہوئی ہے ۔اب اس بات کو چھ ماہ کا عرصہ گزر گیا ہے ، علاقہ والے اور بیٹا مجھے شوہر کے پا س جانے کاکہہ رہے ہیں ، میرے لیے کیا حکم ہے؟

کیا مجھ پر طلاق واقع ہوگئی ہے ؟

اور کیا میں اپنے شوہر پر حرام ہوگئی ہوں ؟  

جواب

  ۱،۲۔صورتِ مسئولہ میں سائلہ کا شوہر40سال  سےاپنی بیوی (سائلہ) کو  یہ کہتا  رہا  کہ ’’اگر تم نےزنا کروایا ہے تو تجھے تین طلاقیں ہیں‘‘ حالاں کہ  سائلہ سے اس طرح کا کوئی فعل سرزد نہیں ہوا تھا تو اس سے سائلہ پر کوئی طلاق واقع نہ ہوگی، البتہ سائلہ کا شوہر اپنی چودہ سالہ  بیٹی کو شہوت کے ساتھ چھوتا تھا اور اس بات کا شوہر نے اقرار بھی کیا ،اگر واقعۃً اس طرح تھا اور شہوت سے چھونا بلا حائل تھا یا ایسا باریک کپڑا درمیان میں حائل تھا کہ جس سے بدن کی حرارت محسوس کی جا سکتی تھی تو اس صورت میں سائلہ اپنے شوہر پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئی تھی ، جتنا عرصہ ساتھ رہیں اس پر توبہ استغفار کریں اور فی الفور علیحدگی اختیار کریں، علیحدگی کا طریقہ  یہ  ہے کہ شوہر بیوی کو طلاق  یا اس جیسے لفظ کہہ کر  اپنے سے علیحدہ کر لے، اس کے بعد بیوی عدت گزارکر دوسرے جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

’’(وإن قالت شئت إن كان الأمر قد مضى) أراد بالماضي المحقق وجوده كإن كان أبي في الدار وهو فيها، أو إن كان هذا ليلا وهي فيه مثلا (طلقت) لأنه ‌تنجيز(وإن قالت شئت إن كان الأمر قد مضى) أراد بالماضي المحقق وجوده كإن كان أبي في الدار وهو فيها، أو إن كان هذا ليلا وهي فيه مثلا (طلقت) لأنه ‌تنجيز۔‘‘

(فصل فی المشیئۃ، ج۔ ۳،ص۔ ۳۳۵،ط۔سعید)

درمختار میں ہے:

 ’’ ‌فلو ‌أيقظ زوجته أو أيقظته هي لجماعها فمست يده بنتها المشتهاة أو يدها ابنه حرمت الأم أبدا فتح۔‘‘

(فصل فی المحرمات،ج۔۳،ص۔۳۵،ط۔سعید)

وفیہ ایضاً:

’’وبحرمة المصاهرة لا يرتفع النكاح حتى لا يحل لها التزوج بآخر إلا بعد ‌المتاركة وانقضاء العدة۔‘‘

(فصل فی المحرمات،ج۔۳،ص۔۳۷،ط۔سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100143

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں