بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مذی کا حکم


سوال

" مذی " کے متعلق کیا حکم  ہے، اگر  وہ  کپڑوں کے  ساتھ  لگ  جاۓ تو کپڑے ناپاک ہوجائیں گے؟  کیا غسل واجب  ہوجاۓ گا یا نہیں؟  مذی  سے  مراد  میری جو  پانی گندے خیال آنے سے پانی نکلتا ہے۔ اس کے متعلق  کیا حکم ہے؟

جواب

   مذی ناپاک ہے،  کپڑوں پر  لگ جائے تو کپڑے ناپاک ہوجاتے ہیں، کپڑوں اور جسم میں سے  جس جگہ مذی لگی ہو اسے دھو کر پاک کرنا ضروری ہے، اس کو دھوئے بغیر نماز جائز نہیں، اگر جسم یا کپڑے پر ایک درہم کی مقدار پھیلاؤ میں مذی لگی ہوئی ہو اور نماز ادا کرلی جائے تو جسم یا کپڑا پاک کرکے اس نماز کو دُہرانا واجب ہے۔

مذی  چاہے شہوت کے وقت  نکلے یا شہوت کے بعد نکلے یا بلاشہوت نکل  جائے، اس کے نکلنے سے صرف وضو ٹوٹ جاتا ہے غسل فرض نہیں ہوتا۔حدیث شریف میں ہے:

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:  مجھے بہت زیادہ مذی آتی تھی، جب مجھے مذی نکلتی، تو میں غسل کیا کرتا، پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا، تو آپ علیہ الصلاة والسلام نے فرمایا: اس میں  صرف وضو ہے، غسل نہیں۔

اگر  پتا چلے بغیر مذی کا اخراج ہوجائے تو علم ہونے کے بعد  جس جگہ لگی ہو اس کو دھولے اور اگر اس دوران کوئی نماز پڑھی ہو تو وضو کرکے اس کو دہرالے۔

بخاری شریف میں ہے:

"عن علي قال: كنت رجلًا مذاءً فأمرت رجلًا أن يسأل النبي صلى الله عليه و سلم لمكان ابنته، فسأل، فقال: «توضأ واغسل ذكرك»."

(أخرجه البخاري في «باب غسل المذي والوضوء منه» (1/ 105) برقم (266)،ط. دار ابن كثير ، اليمامة - بيروتالطبعة الثالثة ، 1407=1987.)

سنن ابی داود میں ہے:

"عن علي رضي الله عنه قال: كنت رجلا مذاء، فجعلت أغتسل حتى تشقق ظهري، فذكرت ذلك للنبي -صلى الله عليه وسلم-، أو ذكر له، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تفعل، إذا رأيت المذي فاغسل ذكرك وتوضأ وضوءك للصلاة، وإذا فضخت الماء فاغتسل."

(أخرجه أبوداود في سننه في «باب في المذي» (1/ 148، 149) برقم (206)،ط.دار الرسالة العالمية،الطبعة: الأولى، 1430 هـ= 2009 م)

بذل المجھود میں ہے:

"واتفقت العلماء على أن الغسل لايجب لخروج المذي، وعلى أن المذي نجس، و على أن الأمر بالوضوء منه كالأمر بالوضوء من البول."

(کتاب الطهارة، باب في المذي (2/ 265)، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند، الطبعة: الأولى، 1427 هـ - 2006 م)

فتاوى هنديه  میں ہے:

"المذي ينقض الوضوء."

(الفتاوى الهندية، كتاب الطهارة،الباب الأول في الوضوء،  الفصل الخامس في نواقض الوضوء (1/ 10)،ط. رشيديه،كوئته باكستان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201169

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں