بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مذہب اسلام اور شریعت محمدیہ کی رو سے سود کا حکم


سوال

سود کے متعلق کیاحکم ہے؟

جواب

قرآن و حدیث کی قطعی نصوص کی روشنی میں  سود  نہ صرف قطعی طور پر حرام  اور گناہ کبیرہ ہے، بلکہ شریعت نےاُسے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کرنے کے مترادف قرار دیاہے، جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے:

"{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ}."[البقرة: 278، 279]

ترجمہ:"اے ایمان والو!  اللہ سے ڈرو ، اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو،  اگر  تم ایمان والے ہو، پھر اگر تم (اس پر عمل  ) نہ کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا  اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول  کی طرف  سے۔"(از بیان القرآن)

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"{يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ}."[البقرة: 276]

 ترجمہ:"اللہ سود کو مٹاتے ہیں،  اور صدقات کو بڑھاتے ہیں"۔(از بیان القرآن)

حدیثِ مبارک میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه» ، وقال: «هم سواء»".

(صحیح مسلم ،باب لعن آکل الربا۔۔۔۔،ج:3،ص:1219،داراحیاء التراث )

ترجمہ:"حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ  رسولِ کریم ﷺ نے  سود  کھانے (لینے) والے پر،  سود کھلانے (دینے)  والے پر،  سودی لین دین  لکھنے والے پر اور اس کے گواہوں پر سب ہی پر لعنت فرمائی ہے نیز آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ سب (اصل گناہ میں) برابر ہیں۔"

لہذا کسی سے سودی رقم کا لین دینے کرنا، یا سودی کاروبار کرنا یا پھر سودی معاملہ میں کسی بھی قسم کی معاونت کرنا شریعت محمدیہ کی رو سے حرام اور ناجائز ہے، اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

سود کے حوالہ سے مزید تفصیل کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر موجود فتوی اور مضمون ملاحظہ کیجیے:

سود کا حکم

سود انسانوں کو ہلاک کرنے والا گناہ

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502102185

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں