بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مذی کا حکم / اور بیوی کا دودھ منہ میں جانے کا حکم


سوال

1:ہم بستری سے پہلے بوس وکنار کے وقت جو لیس دار پانی نکلتا ہے وہ ہاتھوں کو لگ کر باقی جسم اور چہرے پر بھی لگ جاتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے ؟

2:چھاتیوں کو دبانے سے دودھ نہیں آتا بچے بڑے ہیں اور چھاتیوں کو چوسنے پر اگر ایک دو قطرے منہ میں چلے جائیں تو کیا حکم ہے؟

جواب

1:واضح رہے کہ ہم بستری سے پہلے بوس وکنار کے وقت جو لیس دار پانی نکلتا ہے،اسے مذی کہتے ہے،اورمذی ناپاک ہے، نجاستِ غلیظہ ہے، کپڑے اور بدن پر لگنے سے  کپڑا اور بدن ناپاک ہوجاتا ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں   مذی جسم کے جس حصے پر لگ جائے  تو جسم کے اس حصے کو دھوکر  پاک کرنا فرض ہے، جسم کو اچھی طرح رگڑ کر دھولیا جائے کہ مذی کا اثر ختم ہوجائے، اسی طرح کپڑے کے جس حصے پر لگے اس حصے کو بھی دھونا لازم ہوگا ورنہ کپڑا پاک نہیں ہوگا۔

2:واضح رہے کہ شوہر کےلیے اپنی بیوی کے پستان چھونے کی طرح منہ میں لینے کی اجازت ہے،البتہ دودھ آنے کی صورت میں اس کو نگلے نہیں بلکہ باہر تھوک دے، اس لیے  کہ دودھ عورت کے بدن کا جز ہے اور اجزائے انسانی کا استعمال درست نہیں ہے، بچوں کے لیے مدتِ رضاعت میں ضرورت کی وجہ سے اجازت دی گئی ہے،  تاہم اگر بیوی کا دودھ غلطی سے منہ میں چلا جائے تو اسے تھوک دے، اور  اگر بیوی کا دودھ پی لیا ہے تو اس سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا،   البتہ توبہ استغفار کرنا لازم ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"( وعفا ) الشارع ( عن قدر درهم ) وإن كره تحريماً، فيجب غسله وما دونه تنزيهاً فيسن، وفوقه مبطل ( وهو مثقال ) عشرون قيراطاً ( في ) نجس ( كثيف ) له جرم ( وعرض مقعر الكف ) وهو داخل مفاصل أصابع اليد ( في رقيق من مغلظة كعذرة ) آدمي وكذا كل ما خرج منه موجبا لوضوء أو غسل مغلظ."

(‌‌‌‌كتاب الطهارة، باب الأنجاس، ج:1، ص:316، ط: سعید)

و فیہ ایضاً:

"(مص من ثدي آدمية) ولو بكرا أو ميتة أو آيسة، وألحق بالمص الوجور والسعوط (في وقت مخصوص) هو (حولان ونصف عنده وحولان) فقط (عندهما وهو الأصح) ولو بعد الفطام محرم وعليه الفتوى،.... لأنه جزء آدمي والانتفاع به لغير ضرورة حرام على الصحيح شرح الوهبانية."

(كتاب الرضاع، ج:3، ص:209،210،211، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507102131

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں