بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مزدور کو اجرت نہ دینا یا اس میں قصدا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے


سوال

میں ایک پبلیشر کمپنی کا مالک ہوں، میرے پاس چند ٹھیکیدار کام کرتے ہیں،  میں ان ٹھیکیداروں کو کام دیتا ہوں ، ٹھکیداراپنا پیسہ لگا کر مجھے کام کر کے دیتے ہیں اور پیسہ لاکھوں روپوں میں ہوتا ہے کسی کے ستر لاکھ کسی کے چالیس لاکھ کسی کے بیسں لاکھ کسی کے دس لاکھ،  میں اس کام کو آگے بیچ دیتا ہوں،  انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ میں دس پندرہ دن میں مجھے اپنے اکاؤنٹ سے پیسہ ٹھکیداروں کو واپس کردینا چاہئے کیوں کہ اصل اور سب سے زیادہ پروفٹ تو میں کھاتا ہوں، ٹھکیدار کیا کماتے ہیں ٹھیکید ار کل جس مقام پر تھے آج بھی اسی مقام پر ہیں ، میں چند سالوں میں کروڑ پتی بن گیا ہوں زیادہ سے زیادہ تین ماہ میں پیسہ واپس آنا شروع ہو جاتا ہے، پیسہ ٹھکید اورں کو واپس دینے کے بجائے میں اس پیسہ کو بھی اپنے استعمال میں لے لیتا ہوں،  مثلا پراپرٹی گولڈ یا اپنی کمپنی کے لئے پیپر کی خریداری کر لیتا ہوں جس سے میں ٹھیک ٹھاک پر وفٹ کمالیتا ہوں ٹھکیداروں کو میں بھلاتا بھلاتا رولاتا رہتا ہوں ، ان کے پیسہ کو میں نچوڑ لیتا ہوں اور اپنی مرضی سے ان کا پیسہ واپس کرتا ہوں،  اگر کوئی ٹھکیدار آواز اٹھاتا ہے تو میں اس کو کھڈے لائن لگا دیتا ہوں یعنی اس کا کام بند کر دیتا ہوں ، میں اس عمل کو جائز سمجھتا ہوں کیوں کہ اللہ نے مجھے جو عقل سلیم عطا کی ہے وہ ہزاروں میں ایک دو کے نصیب میں آتی ہے جس کو میں استعمال کر کے پیسہ کمارہا ہوں ،  میر اتعلق ایک دیندار گھرانے سے ہے ہر سال میں عمرہ ادا کرتا ہوں ۔

1۔کیا میر ا مذکورہ بالا عمل درست ہے؟ جس کو میں درست تصور کرتا ہوں ، جب کہ  میں جانتا ہوں اس عمل سے ٹھکیداروں کے پیسے کی ویلیوں گر جاتی ہے،اور ٹھکید ار اس پیسے کو اپنے استعمال میں نہیں لاسکتا۔ میں جانتا ہوں کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری ادا کر دوں۔ 2، کیا ایسا عمل کسی شخص یا کمپنی کو جائز ہے ، حشر کے میدان میری گرفت تو نہیں ہوگی،  کیا اس عمل کا کوئی گناہ ہے۔ برائے مہربانی وضاحت فرمائیں؟

جواب

واضح رہے کہ   کوئی کمپنی  یا کوئی شخص کسی   ٹھیکیدار سے کوئی کام لے اور ٹھیکیدار وہ کام  مطلوبہ طریقے پر  مکمل کرلے تو مزدوری کا مستحق بن جاتا  ہے،چناں چہ  کوئی کمپنی یا شخص   ٹھیکیدار کو  کام مکمل کرنے کے بعد اگر بر وقت  ادائیگی نہیں کرے گی،تو حقوق العباد میں کمی کوتاہی اور ظلم کی مرتکب ہوگی۔ 

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:  " اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: تین آدمی ایسے ہیں  کہ قیامت کے دن میں خود ان سے جھگڑوں گا،  ایک وہ شخص  ہے جس نے میرے نام کی قسم کھائی پھر وہ قسم توڑ ڈالی،  دوسرا وہ آدمی ہے جس نے کسی آزادکو پکڑ کر فروخت کردیا پھر اس کی قیمت کھا گیا، تیسرا وہ آدمی جس کو کسی نے مزدوری پر لگایا اور اس سے پورا کام لیا مگر اس کو مزدوری نہ دی۔"

ایک اور موقع پر فرمایا:حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ   روایت کرتے ہیں کہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " مزدور کو اس کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔(یعنی جب مزدور اپنا کام پورا کر چکے تو اس کی مزدوری فوراً دے دو، اس میں تاخیر نہ کرو)

ایک موقع پر فرمایا کہ: ”مال دار آدمی کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔"

لہذا صورتِ مسئولہ میں   سائل کا عمل قطعا درست نہیں ہے،خصوصا جب وہ اس کو جانتا بھی ہے کہ اس سے ٹھیکیداروں کا نقصان ہوتا ہے،اور یہ صاحب حق کو تکلیف دینا ہے جو ظلم اور گناہ کبیرہ ہے ۔

2،۔ایسا عمل کسی شخص یا کمپنی کے لیے ہرگز جائز نہیں ہے ، قصدا جان بوجھ کر  اس طرح کرنے سے   حشر کے میدان میں گرفت ہوگی ، اگر اس نے مرنے سے پہلے پہلے توبہ   کے ساتھ   ان ٹھیکیداروں سے معافی نہیں مانگیں۔

قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالی  ہے:

"وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ."(سورہ انبیاء آیت 47)

ترجمہ:"اور (ہاں) قیامت کے روز ہم میزان عدل قائم کریں گے(اور سب اعمال کا وزن کریں گے) کسی پر اصلا ظلم نہ ہوگا، اور اگر( کسی کا) عمل راۓ کے دانے کے برابر بھی ہوگا تو ہم اس کو  (وہاں) حاضر کردیں گے اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں۔"

حدیث شریف میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد گرامی  ہے:

" قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قال الله تعالى: ثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة: رجل أعطى بي ثم غدر ورجل باع حرا فأكل ثمنه ورجل استأجر أجيرا فاستوفى منه ولم يعطه أجره ،رواه البخاري". 

(مشكاة المصابيح،كتاب البيوع،باب الإجارة،الفصل الأول،ج:2، ص:899، ط: المكتب الإسلامي،بيروت)

دوسری حدیث شریف میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أعطوا الأجير أجره قبل أن يجف عرقه . رواه ابن ماجه."

(مشكاة المصابيح،كتاب البيوع،باب الإجارة،الفصل الأول،ج:2، ص:900، ،ط: المكتب الإسلامي،بيروت)

ایضاً:

"عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " مطل الغني ظلم، وإذا احلت على مليء، فاتبعه، ولا تبع بيعتين في بيعة".

(سنن الترمذي،أبواب البيوع،‌‌باب ما جاء في مطل الغني أنه ظلم،ج:2، ص:578، ،ط:دار الغرب الإسلامي-بيروت)

ایضاً:

"عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ‌إذا ‌خلص ‌المؤمنون ‌من ‌النار ‌حبسوا ‌بقنطرة ‌بين ‌الجنة ‌والنار، فيتقاصون مظالم كانت بينهمفي الدنيا حتى إذا نقوا وهذبوا، أذن لهم بدخول الجنة، فوالذي نفس محمد صلى الله عليه وسلم بيده، لأحدهم بمسكنه في الجنة أدل بمنزله كان في الدنيا."

(البخاري،كتاب المظالم،باب قصاص المظالم،ج:2، ص:861، ،دار ابن كثير، دار اليمامة)

ترجمہ:"حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب مومنوں کو دوزخ سے نجات مل جائے گی تو انہیں ایک پل پر جو جنت اور دوزخ کے درمیان ہو گا روک لیا جائے گا اور وہیں ان کے مظالم کا بدلہ دے دیا جائے گا۔ جو وہ دنیا میں باہم کرتے تھے۔ پھر جب پاک صاف ہو جائیں گے تو انہیں جنت میں داخلہ کی اجازت دی جائے گی۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں محمد ﷑کی جان ہے، ان میں سے ہر شخص اپنے جنت کے گھر کو اپنے دنیا کے گھر سے بھی بہتر طور پر پہچانے گا۔  "

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن الملك من شانه أن یتصرف فيه بوصف الاختصاص".

(کتاب البیوع ، ج:4، ص:504،  ط:سعید)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

 "حقوق الآدميين وهي لا تسقط بالتوبة، ولا فرق بين المقتول والمسروق منه، والمغصوب منه والمقذوف وسائر حقوق الآدميين، فإن الإجماع منعقدٌ على أنها لا تسقط بالتوبة، ولا بد من أدائها إليهم في صحة التوبة، فإن تعذر ذلك فلا بد من الطلابة يوم القيامة."

(سورة النساء،آيت:92،ص:381،ج2،ط:دار طيبة للنشر والتوزيع)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويجب على الغاصب رد عينه على المالك وإن عجز عن رد عينه بهلاكه في يده بفعله أو بغير فعله فعليه مثله إن كان مثليا كالمكيل والموزون فإن لم يقدر على مثله بالانقطاع عن أيدي الناس فعليه قيمته يوم الخصومة عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وقال أبو يوسف - رحمه الله تعالى -: ‌يوم ‌الغصب وقال محمد - رحمه الله تعالى -: يوم الانقطاع كذا في الكافي.... وإن غصب ما لا مثل له فعليه قيمة ‌يوم ‌الغصب بالإجماع كذا في السراج الوهاج".

(كتاب الغصب، الفصلالاول في تفسير الغصب..؛ج:5، ص:119، ط:دارالفكر بيروت) 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410101625

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں