میں پانچ سال سے لوگوں کے لیے مارکیٹ سے موبائل لاکر دیتا ہوں، (میرا کام اس طرح ہے کہ مجھے دکاندار کہتے ہیں کہ : ہمارے لیے موبائل خرید کر لاؤ، تو میں موبائل مارکیٹ جاتا ہوں اور دکان سے موبائل خریدتا ہوں، اور جس کے لیے خریدتاہوں وہ براہ راست رقم موبائل مارکیٹ کے دوکاندار کے اکاؤنٹ میں بھیج دیتا ہے، رقم میرے حوالہ نہیں کرتا، میں صرف موبائل مارکیٹ کے دکاندار سے ڈیل کرتا ہوں اور پھر موبائل خرید کر جس نے مانگا تھا اس کے حوالہ کرتا ہوں اور اپنا مخصوص کمیشن لیتا ہوں)، اور بتاکر 100یا 200 روپے کمیشن رکھ لیتا ہوں، اور کراچی کے حالات تو سب کو معلوم ہیں، لیکن میرے ساتھ الحمد للہ کبھی کوئی نا خوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا ہے، میں اکثر دکانداروں کے لیے بڑی اماؤنٹ کے موبائل لاتا ہوں اس بار بھی ایک دکاندار کے لیے 10 لاکھ کے موبائل لارہا تھا کہ راستہ میں ڈاکوؤں نے مجھ سے گن پوائنٹ پر چھین لیے، اس کے بعد دکاندار نے مجھ سے موبائل مانگنا شروع کردیے تو میں نے F.I.R بھی کٹوائی، اور اپنے جیب سے پیسے بھی خرچ کیے اور بہت ساری کوششوں میں لگ کر میں نے تقریبا تین موبائل پولیس کے ذریعہ نکال کردے دیے ہیں مگر دکاندار مجھ سے ڈیمانڈ کر رہے ہیں کہ موبائل لاکر دو، اب ان موبائل میں جب سم لگتی ہے تب ہی ہم اس کو پکڑ لیتے ہیں اور بر آمد کر لیتے ہیں۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا میں اس میں کسی بھی قسم کا ذمہ دار ہوں؟ حالاں کہ میری کسی بھی غلطی کی وجہ سے نقصان نہیں ہوا ہے، اور جو پیسے میں جیب سے اس کیس میں لگا چکا ہوں اس کا کیا حکم ہوگا؟
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ ً سائل سے ڈاکوؤں نے راستہ میں زبردستی موبائل چھین لیے ہیں تو ایسی صورت میں سائل پر کسی قسم کا ضمان نہیں آئے گا، اور دکان داروں کا سائل سے ضمان کا مطالبہ کرنا یا الزام لگانا جائز نہیں ہے، اور جو رقم سائل نے اپنے طور پر اس مقدمہ (F.I.R وغیرہ کٹوانے میں)میں خرچ کی ہے اس کا سائل کسی سے مطالبہ نہیں کرسکتا، وہ اس میں متبرع شمار ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(ولا يضمن ما هلك في يده وإن شرط عليه الضمان) ...
(قوله ولا يضمن إلخ) اعلم أن الهلاك إما بفعل الأجير أو لا، والأول إما بالتعدي أو لا. والثاني إما أن يمكن الاحتراز عنه أو لا، ففي الأول بقسميه يضمن اتفاقا. وفي ثاني الثاني لا يضمن اتفاقا وفي أوله لا يضمن عند الإمام مطلقا ويضمن عندهما مطلقا. وأفتى المتأخرون بالصلح على نصف القيمة مطلقا، وقيل إن مصلحا لا يضمن وإن غير مصلح ضمن، وإن مستورا فالصلح اهـ ح والمراد بالإطلاق في الموضعين المصلح وغيره."
(حاشية ابن عابدين، كتاب الإجارة، باب ضمان الأجير، 6/ 65، ط: سعيد)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"وحكم الأجير المشترك أن ما هلك في يده من غير صنعه فلا ضمان عليه في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وهو قول زفر والحسن، وإنه قياس سواء هلك بأمر يمكن التحرز عنه " كالسرقة والغصب، أو بأمر لا يمكن التحرز عنه، كالحرق الغالب والغارة الغالبة والمكابرة، وقال أبو يوسف ومحمد رحمهما الله تعالى إن هلك بأمر يمكن التحرز عنه فهو ضامن، وإن هلك بأمر لا يمكن التحرز عنه فلا ضمان. كذا في المحيط.
وبعضهم أفتوا بالصلح عملا بالقولين والشيخ الإمام ظهير الدين المرغيناني يفتي بقول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - قال صاحب العدة فقلت له يوما من قال منهم يفتي بالصلح هل يجبر الخصم لو امتنع قال كنت أفتي بالصلح في الابتداء فرجعت لهذا وكان القاضي الإمام فخر الدين قاضي خان يفتي بقول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -. كذا في الفصول العمادية."
(كتاب الإجارة، الباب الثامن والعشرون في بيان حكم الأجير الخاص والمشترك، الفصل الأول الحد الفاصل بين الأجير المشترك والخاص، 4/ 500، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604101113
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن