بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مزارات پر کھانا، پینا اور تقسیم کرنا


سوال

مزارات اور درباروں پر مروجہ کھانا پینا، اور وہاں کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کرنا کیسا عمل ہے؟ 

جواب

مزارات اور درباروں پر جوکھانے پینے کا سامان اور دیگر  اشیاء لاتے ہیں اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر یہ نیاز  ان ہی بزرگوں کے نام کی ہو، یعنی اس  سے ان بزرگوں کا تقرب مقصود ہو تو  یہ حرام ہے، اس کا کھانا   حرام ہے؛  کیوں کہ یہ نذر لغیر اللہ ہے۔ اور اگر یہ نیاز اللہ کی رضا کے لیے ہو، صرف  اس کا ثواب بزرگوں یا فوت شدگان کو پہنچایا جائے تو  اس کے جائز ہونے کے لیے چند شرائط ہیں:

1۔۔ اس کے لیے کوئی تاریخ ہمیشہ کے لیے مقرر نہ کی جائے، یعنی کسی دن کی تخصیص نہ کی جائے۔

2۔۔  اس کو لازم اور واجب نہ سمجھا جائے، اور نہ کرنے والوں پر لعن طعن نہ کی جائے۔

3۔۔ نذر مانی گئی ہو تو جو کھانا کھلانا ہو وہ صرف فقراء کو کھلائے، مال داروں کو نہ کھلائے۔

4۔۔ قرض لے کر اپنی وسعت سے زیادہ خرچ نہ کرے۔

5۔۔ اور بھی کوئی خلافِ شرع کام اس کے ساتھ نہ ملائے۔

6۔۔ جن دنوں میں اہلِ بدعت وغیرہ کا شعار ہو ان دنوں میں بھی نہ کیا جائے۔

مذکورہ شرائط کے ساتھ  نیاز  جائز ہے، لیکن موجودہ زمانہ میں اس کے جو طریقے رائج ہیں، ان میں مذکورہ شرائط کی رعایت نہیں کی جاتی، اور اس میں دیگر  بھی کئی مفاسد شامل ہوگئے ہیں، لہذا اس کے کھانے اور تقسیم کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (مستفاد: آپ کے مسائل اور ان کا حل، امداد المفتیین)

بہر حال مزاروں پر جو اشیاء تقسیم ہوتی ہیں، ان میں نذر لغیر اللہ کا احتمال بھی ہے؛ اس لیے اسے کھانے سے اجتناب کرنا چاہیے، اور خود بھی تقسیم نہیں کرنا چاہیے۔ فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144112201048

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں