بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مزارات پر جانے كا حكم


سوال

مزارات (شاہ عقیق مزار ،جیلانی بابا اور نورانی مزار ) پر فیملی کا جانا کیسا ہے ؟ جبکہ وہاں جاتے ہیں کہ اپنے اندر کی بیماری دور کرنے اور کڑا وغیرہ وغیرہ پہن کے آتے ہیں وہاں سے جو جاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اسے ماننا چاہیے اور اس پر یقین رکھنا چاہیے ، دوسرا سوال یہ ہے کہ فیملی ویسے تفریح کے لیے ان مقامات پر جاسکتے ہیں کیا؟ جس سے ایمان پر خطرہ لاحق ہو ، جیسا کہ جیلانی بابا کے مزار پر مرد اور عورتیں قلابازی کرتے ہیں اپنے بیماری دور کرنے کے لیے کیا یہ عمل درست ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ فی نفسہ  قبروں کی زیارت جائز ہے؛کیوں کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخرت کی یاددہانی کے لئے وقتافوقتا قبرستان جانے کی ترغیب دی ہے اس لئے قبرستان یا اولیاء اللہ کے مزارات پر تذکیر آخرت کی نیت سے جانا  نہ صرف جائز بلکہ مطلوب ہے بشرطیکہ وہاں جا کر کسی قسم کے شرکیہ افعال وبدعات کا ارتکاب نہ کیا جائے ،  مگر جن جگہوں میں بدعات اور خلاف شرع امور کا ارتکاب ہوتا ہو یا عورتوں کا اجتماع ہوتا ہو وہاں جاناجائز نہیں ۔

لہذاصورت مسئولہ میں  مذکورہ مزارات  پر زیارت کرنے کے لئے مرد حضرات کے لئے جاناتو جائزہے، لیکن فیملی کو مزارت کی  زیارت کے لئے لے جانا جائز نہیں ہے اورمزارات میں  اس نیت سے جانا کہ  صاحب قبر شفا دینے والا ہے یا دیگر خلاف شرع امور کاارتکاب کیاجاتاہے یا وہاں مرد وزن کا اختلاط  ہوتاہے تو ان صورتوں میں مرد حضرات  کے لئے بھی مزارات میں جاناجائز نہیں۔

اسی طرح مزارات پر تفریح کے لیے جانااوروہاں پر   قلابازی کرناوغیرہ یہ سب ناجائز ہے ، کیونکہ زیارت قبور سے مقصد موت اور آخرت کو یادکرناہے،تفریح کرنانہیں ہے  اورحدیث میں  قبر زیارت کرنے والی  عورتوں پر لعنت آئی ہے ۔

مشكاة المصابيح  میں ہے:

"عن ابن مسعود أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «كنت ‌نهيتكم عن زيارة القبور فزوروها فإنها تزهد في الدنيا وتذكر الآخرة» . رواه ابن ماجه."

(كتاب الجنائز،باب زيارة القبور،الفصل الثالث،ج:1،ص554،رقم الحديث:1769،:،ط:المكتب الإسلامي،بيروت)

ترجمہ:’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:میں نے(پہلے)تمہیں قبروں پر جانےسےمنع کیاتھا(مگر اب)تم قبروں پر جایاکرو،کیوں کہ قبروں پر جانادنیاسے بے رغبتی پیداکرتاہےاورآخرت کی یاد دلاتاہے۔‘‘(مظاہر حق)

سنن ابی داود میں ہے:

"عن ابن عباس، قال: ’’لعن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم زائرات القبور، والمتخذین علیها المساجد والسرج."

(باب في زيارة النساء القبور،ج:5،ص:139،رقم الحديث:3236،ط:دار الرسالة العالمية )

ترجمہ: ’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبروں پر جانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے اور ان لوگوں پر بھی لعنت فرمائی ہے جو قبروں کو سجدہ گاہ بنائیں اور وہاں چراغ رکھیں۔‘‘

في البحر الرائق شرح كنز الدقائق:

"(قوله: وقيل: تحرم على النساء إلخ) قال الرملي: أما النساء إذا أردن زيارة القبور إن كان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب على ما جرت به عادتهن فلاتجوز لهن الزيارة، وعليه حمل الحديث: «لعن الله زائرات القبور»، وإن كان للاعتبار والترحم والتبرك بزيارة قبور الصالحين فلا بأس إذا كن عجائز، ويكره إذا كن شواب، كحضور الجماعة في المساجد."

(كتاب الجنائز،ج:2،ص:210،ط:دار الكتاب الإسلامي)

 فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144405100341

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں