بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بوسیدہ مزار کو دوبارہ تعمیر کرنا


سوال

ایک علاقے میں صدیوں سے ایک مزار چلا آرہا ہے جو اہلیانِ علاقہ کے آباء واجداد میں سے کسی کا ہے۔ اس کی عمارت کچھ کمزور ہوگئی ہے، لوگ اس کی عمارت کو اس لیے پختہ کرتے ہیں کہ اس کی وجہ سے  بدفعلیوں سے چھٹکارا مل جائے گا، اس کا کیا حکم ہے؟ چند لوگ اس کے اندر زنا کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں۔

جواب

اگر آپ کے سوال سے مقصود مذکورہ مزار کو پختہ بنانا ہے، تو اس کا حکم یہ ہے کہ شرعی اعتبار سے کسی بھی شخصیت کی قبر کر پختہ بنانا اور اس پر مزار بنانا جائز نہیں ہے، حدیث شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  رسول اللہ ﷺ  نے قبروں کو پختہ بنانے سے اورقبروں پر عمارت بنانے سے منع فرمایا ہے؛ لہذا مذکورہ تعمیر اگرچہ صدیوں پرانی ہو، اور اب کمزور ہوگئی ہے، تو بھی اس مزار کو پختہ بنانا یا قبر کا پختہ بنانا جائز نہیں۔ نیز مزار کی پختگی سے بدعات، رسومات اور وہاں ہونے والے منکرات ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جائیں گے۔ البتہ اگر وہاں موجود قبر بوسیدہ ہوکر بیٹھ گئی ہو یا اس کے منہدم ہونے کا اندیشہ ہو  تو شرعی طور پر   قبر کے اوپر مٹی ڈال کر قبر کو درست کردیا جائے، قبر اکھاڑ کر اندر سے تختہ وغیرہ درست کرنا یا میت کو نکال کر دوسری قبر میں منتقل کرنا جائز نہیں ہوگا۔

بصورتِ صدقِ واقعہ جہاں تک مزار پر ہونے والی فحاشی و عریانی یا غلط کاری کا تعلق ہے، اس کے سد باب کے لیے علاقے کے معززین کو مؤثر اقدامات کرنے چاہییں،  اور اس سلسلہ میں قانونی چارہ جوئی سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہیے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/ 1217):

"(وعن جابر قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يجصص القبر وأن يبنى عليه») قال في الأزهار: النهي عن تجصيص القبور للكراهة، وهو يتناول البناء بذلك وتجصيص وجهه، والنهي في البناء للكراهة إن كان في ملكه، وللحرمة في المقبرة المسبلة، ويجب الهدم وإن كان مسجداً، وقال التوربشتي: يحتمل وجهين: أحدهما: البناء على القبر بالحجارة، وما يجري مجراها، والآخر: أن يضرب عليها خباء ونحوه، وكلاهما منهي لعدم الفائدة فيه، قلت: فيستفاد منه أنه إذا كانت الخيمة لفائدة مثل أن يقعد القراء تحتها فلاتكون منهيةً. قال ابن الهمام: واختلف في إجلاس القارئين ليقرءوا عند القبر، و المختار عدم الكراهة اهـ. ثم قال التوربشتي: ولأنه من صنيع أهل الجاهلية، أي: كانوا يظللون على الميت إلى سنة. قال: وعن ابن عمر أنه رأى فسطاطا على قبر أخيه عبد الرحمن فقال: انزعه يا غلام، وإنما يظله عمله، وقال بعض الشراح من علمائنا: ولإضاعة المال، وقد أباح السلف البناء على قبر المشايخ والعلماء والمشهورين ليزورهم الناس، ويستريحوا بالجلوس فيه اهـ".

زاد المعاد في هدي خير العباد (1/ 504):

"ولم يكن من هديه صلى الله عليه وسلم تعلية القبور ولا بناؤها بآجر، ولا بحجر ولبن ولا تشييدها، ولا تطيينها، ولا بناء القباب عليها، فكل هذا بدعة مكروهة، مخالفة لهديه صلى الله عليه وسلم. وقد «بعث علي بن أبي طالب - رضي الله عنه - إلى اليمن، ألا يدع تمثالا إلا طمسه، ولا قبرا مشرفا إلا سواه» ، فسنته صلى الله عليه وسلم تسوية هذه القبور المشرفة كلها، («ونهى أن يجصص القبر وأن يبنى عليه وأن يكتب عليه»).

وكانت قبور أصحابه لا مشرفة، ولا لاطئة، وهكذا كان قبره الكريم، وقبر صاحبيه، فقبره صلى الله عليه وسلم مسنم مبطوح ببطحاء العرصة الحمراء لا مبني ولا مطين، وهكذا كان قبر صاحبيه".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200530

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں