ایک بدعتی مزار پر جو پیسے معتقدین دیتے ہیں اس کو مزار کمیٹی مزار کے قریب بنی مسجد کے امام کو تنخواہ میں دیتے ہیں؛ اس لیے کہ وہ کمیٹی مسجد کے بھی ذمہ دار ہیں ۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ یہ پیسے مسجد کے امام کو تنخواہ میں دیے جاسکتے ہیں یا نہیں ؟ اگر نہیں دیے جاسکتے ہیں تو پھر امام کو جانتے ہوئے بھی اس پیسے کو بلا نکیر لینے کا کیا حکم ہے ؟ اور اس کے پیچھے اقتدا کا کیا حکم ہے ؟ مدلل جوابات مطلوب ہیں!
صورتِ مسئولہ میں جو لوگ مزار میں پیسے دیتے ہیں کمیٹی کا امام کو مزار کے پیسوں سے تنخواہ دینا جائز ہےاور امام کے لیے تنخواہ لینا بھی جائز ہے اور اس امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"سوال[۷۳۳۱]ـ:کچھار ضلع میں موضع قولر قل میں ایک مزار ہے جو لنگر شاہ کے مشہور مقام میں ہے اس احاطہ میں ایک مسجد بھی ہے ۔ لوگ آتے جاتے مقام کے سامنے جو صندوق رکھا ہوا ہے اس میں روپے ڈالتے ہیں ، ہندو مسلمان وغیرہ ہر قوم کے لوگ ڈالتے ہیں ، کسی کی کیا نیت ہے معلوم نہیں ۔کیا مسجد کے مؤذن اور امام کی تنخواہ اس صندوق کے روپے سے دینا درست ہے یا نہیں ؟اگر درست نہ ہو تو ان روپے کا کیا جائے ؟ یہ آمدنی کبھی بند نہ ہوگی ، مقامی کمیٹی کے لوگ کہتے ہیں کہ ہر سال میں بیس سے تیس ہزار روپے وصول ہوتے ہیں ۔
الجواب حامدا و مصلیا :
ظاہر تو یہ ہے کہ یہ روپیہ مسجد ومزار کے تحفظ و ضروریات کے لیے اس میں ڈالتے ہیں ، پس یہ روپیہ دونوں ہی ضروریات میں صرف کرنا درست ہے ۔ "
(باب احکام المساجد جلد ۱۵ ص:۱۶۶ )
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307101660
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن